• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک دوست جھوٹ نہیں بولتا لیکن ایسا تاثر بنا دیتاہے کہ جھوٹی بات بھی سچ لگنے لگتی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ہم سب دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے پوچھا ’کبھی ایمازون کے جنگل میں گئے ہو؟‘۔ اُس نے چونک کر ایک گہری سانس لی اور اداس لہجے میں بولا’چھوڑو یار! یہ ذکر ہمیشہ مجھے کچھ پرانی باتیں یاد دلا دیتا ہے‘۔ اس جملے کے بعدسب کو یہی تاثر ملا کہ موصوف نہ صرف ایمازون کے جنگل میں گئے ہوئے ہیں بلکہ وہاں کی کوئی یاد بھی اُن کے دماغ سے چپکی ہوئی ہے حالانکہ میں جانتا ہوں قبلہ نے کبھی بہاولپور بھی کراس نہیں کیا۔

جھوٹ بولنے والوں کا جب بھی پول کھلتا ہے وہ مذہب یا عوامی جذبات میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے لوگ خود کو انتہا درجے کے نیک، بے لوث اور عوامی خدمتگار سمجھتے ہیں لہٰذا ان کو لگتا ہے کہ اِنہیں تو سب پر تنقید کرنی چاہیے لیکن کسی کو اِن پر تنقید کرکے گنہگار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ تو ہوتے ہی نیک ہیں۔

تازہ سیلاب میں بہت سی ایسی سوسائٹیز زیرآب آگئیں جو دریا کے کنارے پر آباد تھیں۔ لیکن ایک سوسائٹی پر فوکس کرکے اتنا شور مچایا گیا کہ یوں لگا گویا سیلاب آیا ہی اس سوسائٹی کو ڈبونے تھا۔پانی حد سے بڑھ جائے تو آپ پہاڑ جتنے بھی بند بنا لیں سونامی آہی جاتا ہے۔یہ ایک قدرتی آفت ہے جس سے نمٹنے کے لیے بہرحال انتظامات ضرور کرنے چاہئیں۔اسی شوروغوغا میں ایک ڈاکٹر آنٹی نمودار ہوئیں اور انہوں نے واویلا مچا دیا کہ ان کا مکان بھی ڈوب گیا ہے، وہ تباہ ہوگئی ہیں اور کروڑوں کا نقصان ہوگیا ہے۔ میڈیا کے کان کھڑے ہوئے۔فوراً سب نے ڈاکٹر صاحبہ کے آگے کیمرہ اور مائیک کردیے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی دھڑلے سے جگہ جگہ انٹرویو دینے شروع کردیے اور ایک بڑے صحافی یوٹیوبر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ گھر میں نے خالی پلاٹ پر بنایا تھا۔ انہوں نے پورا تاثر دیا کہ لگے جیسے یہ گھر انہی کا ہے۔ دو دن بعد پتا چلا کہ گھر تو کسی اور کا ہے، ڈاکٹر صاحبہ تو وہاں محض کرائے دار تھیں۔ اصل مالک مکان بھی سامنے آگئے اور انہوں نے کہا کہ سیلاب کا پانی گھر کے ریمپ سے آگے نہیں گیا۔ڈاکٹر صاحبہ کی سانس پھول گئی۔ اب انہوں نے پینترا بدلا اور پہلے مذہب کا سہارا لیتے ہوئے اپنی سچائی کی قسمیں کھائیں، پھر عوامی خدمت کو ہتھیار بناتے ہوئے فرمایا کہ میں تو لوگوں کے حقوق کی آواز اٹھا رہی ہوں۔اسی دوران وہ انٹرویو میں کی گئی اپنی بیشتر باتوں سے مکر گئیں۔ رپورٹر بار بار انہیں بتاتے رہے کہ آپ نے یہ سب کہا تھا لیکن ڈاکٹر صاحبہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ میں ایماندار ہوں، نیک ہوں، میرے جیسی کوئی ہوہی نہیں سکتی۔ایک موقع پر ایک یوٹیوبر نے ان سے پوچھا کہ آپ کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس کا جواب انہوں نے وہی دیا جو کسی گھر میں چوری یا ڈاکے کے بعد عموماً گھر والے ایف آئی آر میں لکھواتے ہیں یعنی سامان دو لاکھ کا گیا ہو تو دس لاکھ لکھوا دیتے ہیں جیسے کہ واپس مل جانا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے بھی یہی سوچا کہ لمبی رقم لکھوانی چاہیے شائد مل ہی جائے سو انہوں نے فرمایاکروڑوں کا کیش اور جیولری کا نقصان ہوا ہے۔ یوٹیوبر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا سیلاب جو گھر کے کمروں تک نہیں آیا اس کی وجہ سے کروڑوں کےکیش اور جیولری کا نقصان کیسے ہوگیا۔ کیا روپے اور جیولری پانی میں بہہ گئی یاچوری ہوگئی؟ جواب میں ڈاکٹر صاحبہ نے آئیں بائیں شائیں کی اور گفتگو کا رخ اپنے مہنگے آئی فون کی طرف موڑ دیا، کہنے لگیں وہ بھی نہیں مل رہا۔ اب یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کا جو مرضی مطلب نکال لیں۔ آئی فون پانی میں بہہ گیا، چوری ہوگیا یا ڈاکٹر صاحبہ کہیں رکھ کے بھول گئیں۔

بہرحال سارے معاملات آہستہ آہستہ کھلتے چلے گئے اور وہ سوشل میڈیا جو ڈاکٹر صاحبہ کی حمایت میں کھڑا ہوا تھا، دودن بعد ان کی مخالفت میں بول اٹھا۔اس دوران چونکہ یوٹیوبر کو مواد چاہیے تھا لہٰذا وہ دھڑا دھڑ ڈاکٹر صاحبہ کے انٹرویوز کرنے لگے۔ ہر انٹرویو میں میزبان ایک سوال پوچھتا جسکے بعد اُس بیچارے کی بولنے کی باری مشکل سے ہی آتی رہی۔ڈاکٹر صاحبہ تڑتڑ بولتی ہیں اور بولتی ہی چلی جاتی ہیں۔اس ساری گفتگو کے دوران وہ فوکس اس بات پر رکھتی ہیں کہ انہیں کوئی خریدنہیں سکتا، وہ لگ بھگ ولی اللہ ہیں، سچ کی علمبردار ہیں اور عوامی خدمت سے سرشار ہیں۔

ایسے لوگ خود پرستی کی ہولناک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔انہیں اپنے علاوہ ہر کسی میں عیب نظر آتے ہیں۔نیکی کے خمار میں مبتلا یہ لوگ اپنی تعریف کے لیے یہ دوسروں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی اچھا ہے تو دوسرے اس کی تعریف کریں…لیکن نہیں! یہ خود اپنی تعریف میں رطب اللسان ہوئے پھرتے ہیں۔ان کا بس نہیں چلتا کہ گلے میں لاؤڈ اسپیکر لٹکا کر گلی گلی اعلان کرتے پھریں کہ حضرات! میں نیک ہوں، میں ایماندا ر ہوں۔دوسروں کے جھوٹ رعونیت سے بے نقاب کرنے کے دعوے کرنے والی اِن ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا جھوٹ بے نقاب ہوا ہے تو ان کا بس نہیں چل رہا کہ اپنے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کوئی فتویٰ صادر کردیں۔دعا کرنی چاہیے کہ اللّٰہ عزت اور شہرت دے تو اسے نبھانے اور سنبھالنے کی توفیق بھی دے ورنہ آپ نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جنہوں نے بڑی محنت سے عزت کمائی اور بڑی آسانی سے گنوادی۔

تازہ ترین