مسائل اور بہت ہی سنگین ہمیں اکیسویں صدی کے درپیش ہیں کیونکہ ہم جس دنیا سے جڑے ہوئے ہیں وہ اکیسویں صدی میں پوری طرح پہنچی ہوئی ہے سارے قواعد و ضوابط اور عالمی قوانین ہم پر اسی صدی کے لاگو ہیں چاہے وہ اقوام متحدہ ہو آئی ایم ایف ہو عالمی بینک یاایشیائی ترقیاتی بینک۔ چین امریکہ سعودی عرب اور دوسرے قرضہ دینے والے ممالک ہمیں اسی صدی کی شرح سود پر قرضے دے رہے ہیں۔ چین اب تک اپنی عسکری طاقت کی نمائش سے گریز کر رہا تھا اس کی پوری توجہ اور طویل المیعاد منصوبہ بندی معیشت پر تھی مگر 21ویں صدی کے تقاضوں نے اور واشنگٹن کی لا اُبالی قیادت نے اس کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ ثابت کرے کہ اس کے پاس اسلحہ اور دفاعی قوت 21 ویں صدی کی ہے۔ ہمارے تین صوبے 21ویں صدی کی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سیلابی ریلوں میں بہے ہیں ان تباہیوں کے ساتھ ہمارے کئی لاکھ ہم وطن مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں اس صورتحال کا مقابلہ ہم 21ویں صدی کی فہم، تدبر ،ٹیکنالوجی ،جدید تحقیق ،سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت سے کر سکتے ہیں مگر یہ خیال رہے کہ سوشل میڈیا مصنوعی ذہانت خود منزل نہیں ہے ہم اس وقت 21 ویں صدی کی تیسری دہائی میں ہیں ۔ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا اور طے کرنا ہے کہ ہم اپنے پاکستان کو کیسی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ کیا ہم چین آسٹریلیا ،ملائیشیا، انڈونیشیا ،سوئٹزرلینڈ ،فن لینڈ، آئیس لینڈ، بلجیئم یا امریکہ بنانا چاہتے ہیں؟۔ ہمارے سامنے بادشاہت کی مثالیں ہیں شخصی قیادت کی ،اجتماعی قیادت کی ،پارلیمانی جمہوریت، صدارتی جمہوریت ،ملی جلی جمہوریت ،جذبات سے چلنے والی حکومت کی۔چین ہمارا دوست ہے ہمالیہ سے بلند اورسمندروں سے گہری دوستی کہی جاتی ہے مگر ہم چین نہیں بننا چاہتے۔ حبیب جالب یاد آتے ہیں 60 کی دہائی میں کیسی مترنم آواز میں کہتے تھے’’ چین اپنا یار ہے اس پہ جاں نثار ہے... پر وہاں ہے جو نظام اس کو دور سے سلام‘‘ہماری سیاسی ،عسکری اور بیوروکریٹک قیادتیں ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ کینیڈا ہی جانا چاہتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی منزل بھی یہی ہے پورے کے پورے خاندان گرین کارڈ کیلئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں ۔ہماری قیادتیں چاہے وہ پی پی پی کی ہوں مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم بلوچستان نیشنل پارٹی سب سانس تو 21 ویںصدی میں لے رہی ہیں اس صدی کے آلات استعمال کرتی ہیں موبائل فون سب کے ہاتھوں میں اسی صدی کے ہیں مگران سب کی طرز رہائش سماجی رشتے اپنی خواتین سے سلوک اپنے ملازموں سے برتاؤ اپنے ہاریوں کمیوں اور مظاہرین کیلئے زندگی کی سہولتیں 19 ویں صدی کی ہیں۔ایک افسوس ناک رحجان گزشتہ دہائیوں میں پاکستان کی تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ شہری قیادتیں جو اپنی سرشت میں غیر جاگیردارانہ تھیں جنکے رقبے تھے نہ بڑی حویلیاں نہ چراگاہیں ،ان کا آئیڈیل بھی جاگیردار ہی نکلے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ دیکھا دیکھی وہی پھڑپھڑاتے کپڑے وہی کروڑوں کی گاڑیاں اورڈالے، وہی حویلیاں اور اپنے کارکنوں کیلئےوہی درجہ بندیاں اور اپنے لیڈروں وزیر اعظم ،صدر ، گورنر زکیلئے وہی بے مقصد چائے پارٹیاں ڈنر اور لنچ۔ اسی طرح مذہبی رہنماؤں کے آئیڈیل بھی یہی جاگیردار قبائلی سردار نکلے ان کے پاس بھی اب کروڑوں کی گاڑیاں بندوق بردار گارڈ گھروں میں اپنی خواتین کے ساتھ وہی انیسویں صدی کا سلوک مدرسوں میں بھی وہی درجہ بندیاں ۔ہماری قومی اسمبلی، سینٹ ،صوبائی اسمبلیوں میں کرسیاں قالین 21 ویں صدی کے اور بڑے مہنگے لیکن ان پر بیٹھنے والوں کی سوچیں اٹھارویں اور 19 ویں صدی کی۔ ان کی چال ڈھال میں، تقریروں میں، وہی پرانی صدیاں گونجتی ہیں۔ 21ویں صدی ہمارے دریاؤں، پہاڑوں، کھیتوں، میدانوں، سمندروں شاہراہوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں، اسکولوں میں دندنا رہی ہے مگر ہمارے قائدین، وزراء، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سیکرٹریوں اور دوسرے افسروں کے طریق کار اور روز مرہ وہی ہیں بریانی کی تھیلیاں بانٹنا امدادی چیک تقسیم کرنا غریبوں کو گلے لگانا تصویریں کھینچوانا۔ پہلے اخباروں میں یہ سب کچھ چھپوانے کیلئے ایڈیٹروں کو خوش رکھا جاتا تھا۔اب سوشل میڈیا کے انفلوئنسرز کو اس ضمن میں نہال کیا جاتا ہے 21ویں صدی تو ہر لمحہ ہر پل یہ کہہ رہی ہے کہ اب قیادت تحقیق کی ہے، اعداد و شمار کی ہے،ہر صبح یہ دیکھنا ہوگا کہ اب کیا آثار ہیں۔ کیا شرح سود ہے۔ کتنے قرضے ہیں ماضی اور حال میں کتنا فرق ہے۔ مستقبل یعنی چند سال بعد کیا گنتی ہوگی ۔کیا کسی سیاسی پارٹی یا اس کے سربراہ کے پاس یہ اعداد و شمار ہیں ،کسی ایم این اے کو اپنے انتخابی حلقے کے حقیقی غریبوں کی تعداد معلوم ہے۔ انکے علاقوں میں فی ایکڑ پیداوار کیا ہے کون کون سی فصلیں پیدا ہو رہی ہیں اور علاقے میں اناج کی ضروریات کیا ہیں کسی بلدیاتی ادارے میں آئندہ 10/ 20 سال کے امکانات پر غور ہو رہا ہے؟کیا ہماری سیاسی پارٹیوں کے سربراہ یہ غور کرتے ہیں کہ اب جلسے جلوس، چاہے وہ استقبالی ہوں یا کسی کی رہائی کیلئے ،اثر انداز نہیں ہوتے ۔اپنی تصویروں کے ساتھ اخباری صفحات میں جگہ روکنے سے قیادت مستحکم نہیں ہوتی۔ ٹی وی چینلوں میں اپنی تشہیری فلمیں اور ویڈیو چلانے سے لوگوں کے دل جیتے نہیں جا سکتے۔ 21ویں صدی کا تقاضہ یہ ہے کہ آئندہ 20 /22 سال کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسکے وسائل اور مسائل کا جائزہ لیا جائے اپنے کارکنوں،عہدے داروں کو ان اہداف کے حصول کیلئے سرگرم کیا جائے اس وقت قیادتوں اور عام لوگوں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ ہیں اور اس کی وجہ سے ایک مایوسی بھی پھیلتی ہے لوگوں کی گفتگو میں بیزاری کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ قومی سیاسی پارٹیاں اپنے کارکنوں کےذریعے عام لوگوں میں جینے کی امنگ پیدا کریں ۔ لوگوں کو مسائل 21ویں صدی کے درپیش ہیں لیکن ان سے سلوک 19 ویں صدی کا ہو رہا ہے گزشتہ دو تین مہینے میں سیلابی ریلوں نے ہماری سیاسی بصیرت انتظامی تدبر اور حفظ ما تقدم کی دھجیاں اڑا دی ہیں، وقت نے مسلم کر دیا ہے کہ جاگیردارانہ سوچ ،سامراجی ہتھکنڈے 21 ویں صدی کی حکمرانی سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ قیادت صرف قومی سیاسی جماعتیں ہی نہیں کرتیں جدید ٹیکنالوجی نئے علوم اور نئی طرز حکمرانی پر ریسرچ کر کے یونیورسٹیاں بھی راستہ دکھا سکتی ہیں، دینی مدارس بھی دوسرے اسلامی ملکوں کے مدارس سے مشاورت کر کے قیادت کر سکتے ہیں، اہل قلم ادیب شاعر دانشور بھی اپنے کلام سے اپنے ناولوں سے رہنمائی کرتے ہیں۔ 21صدی کی قیادت زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں کی ذمہ داری ہے اور قوم اسی اکیسویں صدی کی اجتماعی قیادت کیلئے بے تاب ہے۔