• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے مبعوث جملہ انبیائے کرام نے نہ صرف خالق حقیقی کے بارے آگاہی دی، بلکہ مخلوق کے تحفظ، ترقی اور بالخصوص انسان اور اس کے ماحول کی بقاء کی تعلیمات بھی دیں۔ نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺنے بھی ماحولیاتی تصرف کے اسلامی تصور کے فروغ کیلئے تعلیم کے ساتھ عملی جدوجہد کی۔ ایسے کیوں نہ ہو کہ اسلام تو دین فطرت کا دوسرا نام ٹھہرا۔ ماحولیاتی علوم کے جدید تصورات یعنی اکالوجی، پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تنوع (Biodiversity) وغیرہ جو پچھلے ساٹھ سال کے دوران دنیا میں متعارف ہوئے، ان کی متواتر تعلیمات اور عملی اظہار حیران کن حد تک سیرتِ طیبہؐ میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اسٹاک ہام کنونشن 1972ء کے تحت اقوامِ متحدہ نے مستحکم ترقی کیلئے بین الاقوامی ایجنڈا پیش کیا۔ اس میں طے پایا کہ نئے پراجیکٹ کے متاثرہ فریقین کو رضامندی کے ساتھ متبادل روزگار اور وسائل مہیا کرنا لازم ہے۔ حضرت محمدﷺنے 1440سال قبل مسجد نبویؐ کی تعمیر سے پہلے ہی اس اُصول کو وضع فرما دیا چنانچہ جب تک یتیم انصاری بھائیوں سے ان کی ملکیتی جگہ کی رضامندی حاصل نہ کی گئی اور انہیں معاوضہ ادا نہ کیا گیا تب تک آپﷺ نے تعمیر مسجد نبویؐ کی شروعات کی اجازت نہ دی۔ یہ ان عناصر کیلئے بھی ایک گائیڈلائن ہے، جو اعلیٰ مقاصد اور ماحولیاتی اصلاح کے بہانے مجبور مالکان سے بزورِ قوت زمین، تعمیرات اور کاروبار چھین لیتے ہیں۔

حضرت محمدﷺنے دنیا کو اللّٰہ کی تخلیق کردہ حیات و ماحولیات کی نگرانی اور تکریم کا درس دیا۔ آپ نے ہمیشہ پانی اور دیگر قدرتی وسائل کے منصفانہ استعمال کی تلقین کی۔ آپ نے فرمایا: ’’بے شک تم اگر دریا اور ندی کی قربت میں بیٹھے ہو، تب بھی پانی کی ایک بوند کو ضائع نہ کرو‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اگر کوئی مسلمان پودوں کے بیج بوتا ہے، یا شجرکاری کرتا ہے، بعدازاں انسان اور چرند پرند اس سے مستفید ہوتے ہیں، تو یہ اس انسان کی طرف سے صدقہ ہے، جس کے مؤجب روزِ قیامت اس کو اَجر کثیر عطا کیا جائے گا‘‘۔ الترمذی کے مطابق آپ کا ارشاد ہے: ’’جو کوئی بھی بنجر زمینوں کو آباد کرے اور پھر اس پر غذائی اجناس یا باغات وغیرہ کی کاشت کرے تو اس کیلئے اللّٰہ نے جنت میں ایسا ہی انعام رکھا ہوا ہے‘‘۔ آپ ؐکا یہ ارشاد ایک جامع گائیڈلائن ہے جس کی روشنی میں زمینی صحت اور زرعی کاشت (Crop diversity) کی واضح ترغیب موجود ہے۔ اسی طرح Fauna یعنی جانداروں اور حیوانات کیلئے آپؐ کی تعلیمات تواتر سے موجود ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک شخص کا دورانِ مسافرت کنوئیں کے پاس سے گزر ہوا۔ اس نے جھک کر کنوئیں سے پانی نکالا اور اپنی پیاس بجھائی۔ اسی اثناء میں اس کی ایک کتے پر نظر پڑ گئی، جو کہ شدتِ پیاس سے کنوئیں کی منڈھیر پر موجود گیلی مٹی کو چاٹ رہا تھا۔ اس نے سوچا یقیناً اس کتے کو بھی شدید پیاس لگی ہے۔ وہ دوبارہ کنوئیں میں اُترا۔ اپنے جوتوں میں پانی بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللّٰہ نے اس شخص کی ادا کو پسند فرمایا اور اس کے جنتی ہونے کی خوش خبری دی۔


حضرت ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’سوائے قبرستان اور حمام کے، تمام زمین مسجد ہے‘‘۔ اس سے بظاہر مراد زمین پر کہیں بھی نماز اور عبادت کی ادائیگی کی اجازت ہے، لیکن عملی تعبیر کے دوران ہم آپؐ کے اس ارشاد سے ماحولیاتی اصلاح کیلئے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں کہ مسجد میں دورانِ عبادت و نماز جس طرح مکمل پاکیزگی، خاموشی، ڈسپلن، وقت کی پابندی اور پیش امام یعنی قیادت ضروری ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ان اقدار کو پوری زمین پر پھیلا دیں۔ یوں زمین پر ماحولیاتی اصلاح کے ساتھ اسے مسجد میں تبدیل (Convert) کرنے کا بھی انعام اور اَجر مل سکتا ہے۔ آپؐ نے فصلوں اور درختوں کو جنگ کے دوران بھی تباہ کرنے سے منع فرمایا، چاہے ان کی وجہ سے دشمن کو عسکری فائدہ حاصل ہو۔ آپؐ کے بے شمار ارشادات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل کی حفاظت، زمین کا بچائو اور ہوائوں کی پاکیزگی کتنی اہم ہے۔ آپؐ کو بخوبی ادراک تھا کہ قدرتی وسائل اور اشیاء کو بکثرت استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ زرعی زمینوں، جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلئےآپؐ نے ’’حرم‘‘ اور ’’حماء‘‘ کے نام سے محفوظ علاقے (Santuary Zones) بنوائے۔ ’’حرم‘‘ وہ محفوظ علاقہ تھا جہاں کے آبی کنوئوں اور بارشی ذخیروں کا ضرورت سے زیادہ استعمال و اخراج ممنوع تھا اور ’’حماء‘‘ زون میں جنگلات، مفید جڑی بوٹیوں اور فصلوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جاتے۔


آپؐ کی تعلیمات کے مطابق چونکہ انسان کے پاس خالق کی نیابت (Stewardship) ہے۔ اس لئے دین فطرت، زمینی مناظر اور وسائل کی حفاظت کا وہ ذمہ دار ہے۔ اس دنیا کی ماحولیاتی بقاء نباتات، حیوانات،جمادات وغیرہ کےحیاتیاتی دورانیوں (Ecological cycles) کے تال میل سے قائم رہ سکتی ہے۔ ایسا اتفاق عمل جس میں ان دورانیوں کے سٹیک ہولڈرز کے مابین وسائل کیلئے کھینچاتانی نہ ہو۔ افسوس کہ امراء کی اکثریت اس دور میں حرص و ہوس پر مبنی اپنی تجارت و صنعت سے تائب نہیں ہونا چاہتی اور ان ماحول کش سرگرمیوں کی وجہ سے زمینی وسائل اور معدنیات آنے والی نسلوں کیلئے محدود اور معدوم ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ مفلس اور غریب طبقات ماحولیاتی تباہ کاریوں کے ہاتھوں اپنے گھر، گھروندوں اور روزگار کے مسائل سے دوچار ہیں۔


آپؐ نے وسائل کی لوٹ مار اور غیرمنصفانہ تقسیم روکنےکیلئے وضاحت فرما دی کہ انسان کی ذاتی ملکیت وہی کچھ ہے جو اس نے اپنی محنت سے کمایا اور یہ کہ تمام قدرتی وسائل ازقسم پانی، ہوا، روشنی، توانائی اور زمینی معدنیات وغیرہ انسانی گروہوں کی مشترکہ ملکیت اور استعمال کیلئے ہیں۔ ان قدرتی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، استعمال اور ضیاع پر تنبیہ فرمائی تاکہ موجودہ اور آنے والی حیاتیاتی نسلوں (حیوانات، نباتات) کے حق استعمال میں فرق نہ آئے اور ان کا استحصال نہ ہو سکے۔چنانچہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ اپنی ضروریات سے زیادہ مال کو دوسروں کے استعمال کیلئے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ منصفانہ تقسیم اور استعمال کیلئے آپؐ نے حق سے زیادہ حصول کو حرام قرار دیا۔ رباء یعنی سود سے منع فرمایا اور انسانی گروہوں کی جانب سے نسل در نسل اقتدار، وسائل اور اختیارات پر تسلط کو ناپسند فرمایا، کیوں کہ یہ ساری خرافات۔ وسائل کی لوٹ، مخلوق کے استحصال، فروغ غربت، میرٹ سے انکار اور بعدازاں ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔


زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے


تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

تازہ ترین