پچھلے ہفتہ ’’جانشین عمران خان !‘‘ کالم لکھا ،فقط ایک سیاسی تجزیہ، غیرضروری شورو غوغا مچا، انواع و اقسام کا واویلا برپا رہا۔ کالم میں نہ تو کوئی ذومعنی فقرہ اور نہ ہی ابہام پھر بھی ہر تجزیہ نگار، یوٹیوبر، سیاسی مبصر نے اپنے اپنے مطالب پہنائے اور پھیلائے ۔
چند ماہ سے تحریک انصاف کے ورکرز اور سوشل میڈیا کی نئی قیادت بارے یکدم یکسوئی میری فکر بڑھا گئی۔ یوں ہی کچھ ہفتوں سے واہمہ کہ ’’عمران خان کی سیاسی زندگی سے کھیلا جا سکتا ہے‘‘۔ عمران خان گرفتار ہوکر اٹک جیل منتقل ہوئے تو لواحقین کو پیغام پہنچایا کہ ہوشمندی سے معاملہ فہمی درکار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے افہام و تفہیم بغیر، بند گلی مقام ہے۔ ناچیزکی رائے میں پہلی ترجیح زندگی بچانا ہے، میری رائے کوئی خاطر میں لائے کیوں؟ درست! آج ملکی سیاست عمران خان کے قبضہ استبداد میں، مقبول سیاست ایک جزولاینفک بن چکی ہے۔ اسی پیرائے میں بھٹو اور نواز شریف سیاست کا تقابلی جائزہ لینا ہوگا۔ نواز شریف نے سن2000ء میں ایک معاہدے کے بعد جان بچائی۔ 7سالہ جلا وطنی کے بعد 24نومبر 2007ء کو جب لاہور واپس آئے تو فقید المثال استقبال منتظر تھا، جنوری 2022ء تک وطنی سیاست کا محور رہے۔ خصوصاً پنجاب میں نمبر1 ، 2 ، 3 چارسُو نواز شریف ہی نواز شریف تھے۔ 2018ء میں دھونس دھاندلی سے عمران خان کو جب وزیراعظم بنایا گیا تو نواز شریف سیاست کا ہی طوطی بولتا تھا۔دوسری طرف بھٹو صاحب کسی طور نہ جھکے اور لٹک گئے۔ میں پیپلز پارٹی کے موقف سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ میرے نزدیک ایک طرف بھٹو نے جیسے ہی جان دی دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سیاست سے بھی جان نکل گئی ۔ صدافسوس ! جانشینی بینظیر صاحبہ کے پاس جیسے ہی آئی پہلی فرصت میں بذریعہ افہام و تفہیم جیل سے لندن پہنچ گئیں۔ 10اپریل 1986ء کو جب لاہور واپس تشریف لائیں تو بھی مک مکا کے ذریعے ،بلاشبہ تاریخی استقبال ہوا ۔ وزیراعظم بنیں تو بھی انہی لوگوں سے سمجھوتہ کرکے جنہوں نے والد بھٹو کی جان لی تھی۔بالفرض محال ، اگر ذوالفقار علی بھٹو سمجھوتہ کرکے باہر جاتے اور پھر معاملہ فہمی کرکے 10اپریل1986 ء کو واپس آتے تومملکت بھٹو کے استقبال کا جو محیرالعقول منظر پیش کرتی ۔ میری نپی تلی رائے اگر بھٹو صاحب اپنی زندگی بچا لیتے تو PPP آج بھی مملکت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت رہتی۔
مجھے کسی کی جانشینی سے غرض نہیں ، فقط ملکی سیاست پر اسکے اثرات سے مطلب ہے۔ جانشین کے تعین کی جانچ پرکھ کی میری اپنی کسوٹی ، جو میرے لئے حرف آخر ہے۔ اگر کسی پارٹی کا ورکر، سپورٹر میرے سوال کے جواب میں بتائے کہ ’’مرکزی لیڈر کی غیرموجودگی میں کس کی ذات پراعتماد ہوگا ، پارٹی سپورٹر جسکا نام لے گا وہی جانشین بنے گا‘‘۔ اسی معیار پر فروری مارچ 2018ء کی مقبول پارٹی مسلم لیگ ن کے کارکنوں سے جب پوچھا تو بلا حیل و حجت، مریم نواز کا نام لیا گیا ۔ انہی دنوں کالم لکھا کہ نواز شریف کی جانشین مریم نواز، ن لیگی سیاست آج مریم نواز کو منتقل ہو چکی۔ مت بھولیں ! 2018ء میں شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر ،25 سال سے بطور نائب اور تین دفعہ پنجاب کے چیف منسٹر رہ چکے تھے ، دوسری طرف اس وقت مریم نواز کے پاس پارٹی عہدہ، نہ MNA نہ MPA ، نہ ہی کبھی واضح سیاسی رول تھا ۔ مسلم لیگ ن کے چاہنے ماننے والوں نے جانشینی مریم نواز کو سونپ رکھی تھی ۔ تھوڑا اور پیچھے ، وطنی تاریخ میں جنرل ضیاء الحق انتہائی مقبول حکمران، فوجی ڈکٹیٹر ہونے کےباوجودبہت بڑی FOLLOWING تھی ۔ 17اگست 1988ء طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہوئے ، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ نصیب ہوا ۔ چند ماہ بعد بینظیر وزیراعظم بنیں تو نواز شریف بطور اپوزیشن لیڈر سامنے آئے، ضیاء الحق کے ماننے چاہنے والے باجماعت نواز شریف کیساتھ جڑ گئے۔ دسمبر 1988 میں اعجاز الحق صاحب سعودی عرب تشریف لائے تو کئی تفصیلی نشستیں رہیں اورمستقبل کے پلان بنے ۔ فرمانے لگے کہ جلد از جلد پاکستان منتقل ہوکر سیاست میں حصہ لینا ہے ۔ عرض کی کہ ’’نواز شریف کی قیادت میں سیاسی سفر شروع کرنا ہوگا‘‘، آپکے والد کے ماننے چاہنے والے اب نواز شریف کیساتھ ہیں۔ آپ بیٹے ضرور ہیں مگر والد کا ووٹ بینک نواز شریف کے تصرف میں آ چکا ہے۔ تیسری مثال ، بھٹو صاحب کی چھوڑی وراثت بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی بجائے بینظیر کو منتقل ہو گئی تھی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، علیحدہ موضوع، جامع تجزیہ کا متقاضی ہے۔
پچھلے کالم کا بنیادی موضوع، عمران خان کی جانشینی تھی تو ضمناً چند شکایات بھی درج کی تھیں آج پھر دُہراؤں گا کہ محمود الرشید ، یاسمین راشد ، اعجاز چوہدری ، عمر چیمہ، حسان خان دس دس سال قید بامشقت کے باوجود PTI سوشل میڈیا کی نظروںسے اوجھل کیوں رہے ۔ PTI سوشل میڈیا نے انکی قربانی پر جس بے حسی کا مظاہرہ کیا، اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔ اصل موضوع ، عمران خان کی جانشینی اب جبکہ علیمہ خان کو منتقل ہو چکی ہے، اس پر مزید کچھ وضاحت دینی ہے ۔ چار ماہ پہلے کی سیاسی صورتحال ایسی نہ تھی کہ عمران خان کی جانشینی بارے رائے زنی ہو۔ حالات کا نیا پلٹا ، علیمہ خان نے شاید شعوری کوشش نہ کی ہو ، میں نے اخلاص سے لکھا کہ علیمہ خان ، عمران خان کی جانشین بن چکی ہیں۔
آج PTI ورکرز علیمہ خان پر یکسو ہیں ۔ علیمہ خان کی سیاست سے دلچسپی واجبی ہے یا وقتی ، اہم نہیں، اہم اتنا کہ اگر عمران خان تاحد نگاہ جیل میں رہے یا سیاست سے باہر رہے تو PTI سیاست کا محور علیمہ خان نے رہنا ہے ۔ منافقت سے غرض نہیں،جب آپ تمام کام سیاسی کر رہے ہوں ، عزائم بھی سیاسی ہوں ، سیاسی خواہشات میں غرقاب ہوں تو پھر آپ گوڈے گوڈے سیاست میں ملوث ہیں ۔
علیمہ خان کو دو سال سے میڈیا EXPOSURE ملنا ، سخت بیانیہ عام کرنے کی سہولت کا موجود ہونا ، چند ناگفتہ بہ واقعات کا رونما ہونا، کیا کوئی ’’مہربانی‘‘ بھی شامل ہے، یہ طے کرنا مشکل ہے ۔ ایسے حالات میں ورکرز اور سوشل میڈیا کا علیمہ خان پر اعتماد فطری عمل تھا ۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف بارے جو بھی عمومی رویہ اپنایا ، جو اسکیمیں بنائیں ایک بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔ اب بھی جس تدبیر میں مصروف ، خدشہ اتنا کہ الٹی پڑنے کو ہے ، بھیانک نتائج ہی نکلیں گے ۔ اللّٰہ تعالیٰ عمران خان کو عمر خضر عطا کرے، تنومند ایتھلیٹ ، اگلی کئی دہائیوں تک جسم اور دماغ نے نوجواں رہنا ہے ۔بالفرض محال عمران خان پورے کروفر سے سیاست میں واپس آتے ہیں تو جانشینی کا شوشہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیگا ۔ اپنی سیاست کے حقوق ملکیت بنفس نفیس اپنے پاس ہی رکھیں گے ۔ خدانخواستہ عمران خان اگر اپنا سیاسی سفر جاری نہ رکھ سکے تو چند سال بعد علیمہ بی بی کی قیادت میں تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا بعید ازقیاس نہیں ۔ پی ٹی آئی قیادت کا ہما فی الحال علیمہ خان کے سر پر بیٹھ چکا ہے ۔ انہونستان میں ہر انہونی کا امکان ہے ، اگر وزیراعظم علیمہ خان بن بھی جائے تو حرج ہی کیا ہے۔