• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی زمین پر اس برس جو سیلاب اترا، وہ محض بارشوں کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ قدرت کے قہر اور انسانی غفلت کا امتزاج تھا۔ اس طوفان نے صرف کھیت نہیں بہائے، صرف کھلیان نہیں اجاڑے، بلکہ کسان کے خوابوں کو مسل دیا اور عوام کے دسترخوان سے رونق چھین لی۔ وہ کھیت جہاں کبھی سنہری گندم کی بالیاں ہوا کے سنگ گیت گاتی تھیں، آج ویرانی اور کیچڑ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ وہ کھلیان جہاں بچوں کے قہقہے گونجتے تھے، اب ٹوٹی بوریوں اور ضائع شدہ غلے کے قبرستان بن چکے ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً بائیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی میں ڈوب گئی۔ چاول کی فصل کا ساٹھ فیصد صفایا ہو گیا، کپاس کی نازک کلیاں پینتیس فیصد تک اجڑ گئیں اور گنّے کی کھڑکیاں تیس فیصد برباد ہوئیں۔ مکئی، سبزیاں اور چارہ بھی شدید نقصان کا شکار ہوئے۔ یہ زیاں صرف فصلوں کا نہیں، بلکہ اس معیشت کا ہے جو انہی کھیتوں پر سانس لیتی ہے۔ذخیرہ شدہ غلے کے بڑے بڑے گودام، جو کبھی تحفظ کی علامت تھے، اب نمی سے بگڑتے دانوں اور خراب ہوتی بوریوں کے گواہ ہیں۔ وہ گندم جو کبھی زندگی کا استعارہ تھی، آج بدبو اور بے کار پن کی علامت بن گئی ہے۔ فلور ملز اور چکی مالکان مانتے ہیں کہ بڑے ذخائر پانی کی نذر ہو گئے، رسد کے راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور جو کچھ باقی ہے وہ بھی ناقابلِ برداشت قیمتوں پر دستیاب ہے۔

بازار میں مہنگائی کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔ آٹے کا تھیلا جو کل تک 1450 روپے کا تھا، آج کئی شہروں میں 2500روپے تک جا پہنچا ہے۔ کوئٹہ میں یہ قیمت 2100روپے، جبکہ خیبر پختونخوا میں 2400سے 2500روپے تک ہو چکی ہے۔ آٹے کی بڑھتی قیمت نے روٹی کو بھی عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا ہے۔ وہی روٹی جو کل تک زندگی کا سہارا تھی، آج خواب لگتی ہے۔

چاول کا انجام بھی کچھ کم المناک نہیں۔ دھان کے کھیت پانی میں غرق ہو گئے، لہلہاتے کھلیان برباد ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 25کلو کا تھیلا، جو آٹھ ہزار روپے میں خریدا جاتا تھا، اب نو ہزار سے ساڑھے نو ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ یوں فی کلو قیمت اچانک تیس سے چالیس روپے بڑھ گئی۔ وہ دسترخوان جو کبھی چاول کی بھاپ اور خوشبو سے مہکتے تھے، اب مہنگائی کی دھول میں اَٹے ہوئے کراہ رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ محض قدرتی آفت کا نتیجہ ہے؟ بازاروں کی گلیوں میں ایک اور سرگوشی ہے: قیمتوں کی یہ آگ سیلاب کی نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی بھی دین ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خوف ہی اجناس کو گوداموں میں قفل لگانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ وہ تاجر جو کل تک معمولی نرخ پر فروخت کرتے تھے، آج ہوس کے اسیر ہو کر انتظار میں ہیں کہ کب قیمتیں مزید اوپر جائیں۔پاکستان میں روایت رہی ہے کہ ستمبر کے بعد آٹے اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین اسے ’سیزنل سائیکل‘ کہتے ہیں۔ نئی فصل آنے سے پہلے کسان اور خریدار اپنے ذخائر ختم کر لیتے ہیں اور مارکیٹ میں طلب بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں حکومت عموماً سرکاری گوداموں سے اجناس جاری کر کے توازن قائم کرتی ہے یا درآمد کے ذریعے قیمتیں قابو میں رکھتی ہے۔

مگر اس برس کہانی مختلف تھی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پیداوار 29.69ملین ٹن رہی، جو مقررہ ہدف 32 ملین ٹن سے کم تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ اور موجودہ ذخائر کی بنا پر کسانوں سے خریداری نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گندم کی قیمت جو پچھلے برس 3900روپے فی من تھی، اس سال 1800 سے 2000 روپے فی من تک گر گئی۔ کسان احتجاج کرتے رہے، مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی۔

پھر جب پنجاب کے میدانوں میں سیلاب آیا، حکومت نے بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی لگا دی۔ اس فیصلے نے یہ تاثر دیا کہ پنجاب میں قلت ہے۔ چند ہی دنوں میں قیمت 2700 روپے فی من سے بڑھ کر 4000روپے فی من ہو گئی۔ چھاپے مار کر گندم برآمد کرنا اور 3000روپے فی من پر فروخت کرنا وقتی سکون تو دے سکتا ہے مگر مستقل علاج نہیں۔ میڈیا میں 14روپے کی روٹی کی بات ضرور سنائی دیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی قیمت کہیں دستیاب نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ مہنگائی صرف سیلاب کی دین ہے یا اس میں انسانی لالچ اور ناقص حکومتی حکمت عملی بھی شامل ہے؟ سچ یہ ہے کہ قدرتی آفات اپنی جگہ، مگر جب انکے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری مل جائے تو بحران کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ماہرینِ معیشت خبردار کرتے ہیں کہ آنے والے چند ہفتے خوراک کی قیمتوں کو مزید بھڑکائیں گے۔ افراطِ زر میں ایک نیا زخم کھلے گا۔ اگر حکومت نے اپنے ذخائر بروقت جاری نہ کیے اور درآمدات نہ کیں تو یہ بحران عوام کی سانسوں تک جا پہنچے گا۔ اگلے چند مہینوں میں قیمتوں کا رخ اس پر منحصر ہوگا کہ رسد کتنی جلدی بحال ہوتی ہے اور فیصلوں میں کتنی بصیرت دکھائی جاتی ہے۔یہ سیلاب صرف پانی کی یلغار نہیں، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم نے اپنی بدانتظامی، اپنی کمزوری اور اپنے لالچ کو دیکھا۔ یہ زمین کے ڈوبنے کی کہانی نہیں، یہ خوابوں کے ٹوٹنے کی داستان ہے۔ یہ محض کھیتوں کا نقصان نہیں بلکہ ایک قوم کے اعتماد کا زوال ہے۔

یہ آفت ہمیں یہ سبق دے گئی کہ قدرت کی مار سے بچنے کیلئے صرف دعائیں کافی نہیں، بصیرت، دیانت اور تدبیر بھی ضروری ہیں۔ کسان کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور عوام کے خالی دسترخوان ہمیں پکار رہے ہیں۔یہ وقت ہے سوچنے کا، یہ وقت ہے سنبھلنے کا۔ ورنہ اگلی بار یہ پانی صرف کھیت نہیں بہائے گا، بلکہ امیدوں کا چراغ بھی بجھا دے گا۔

تازہ ترین