پاکستان کی سرزمین نے حالیہ دنوں میں ایک ایسا المیہ دیکھا جو دل دہلا دینے والا تھا۔حالیہ دنوں میں راوی، چناب اور ستلج کے سیلابی ریلوں نے ہزاروںبستیوں کو نگل لیا، کھیت اجڑ گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں، لمحوں میں زندگیاں موت کی کشتیوں پر بیٹھ گئیں، بے بسی کے سامنے سب کچھ ڈھیر ہو گیا، پانی میں ڈوبے ہوئے مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے، ہر آنکھ خوف، مایوسی اور آنسوؤں سے بھرگئی، ہر دل میں بھوک اور بے بسی کا زہر گھل گیا لیکن سیلاب کی پھیلائی تباہ کاریوں کے انہی اندھیروں میں انسانیت کی روشنی بھی جگمگائی۔ یہ روشنی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے، اس ٹرسٹ نے خدمتِ خلق کو اپنا فرض جان کر میدانِ عمل میں قدم رکھا اور فلاح و بہبود کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔
یاد رہے کہ اس کے چیئرمین عبد الرزاق ساجد ہیں جو کسی زمانے میں انجمن طلباء اسلام کے سربراہ رہ چکے ہیں، اب ان کا مشن صرف و صرف دکھی انسانیت کی خدمت ہے۔ انکے ٹرسٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ 18 اضلاع کے کئی شہروں اور سینکڑوں دیہات میں وسیع پیمانے پر ریلیف آپریشن شروع کیا۔ مظفرگڑھ کی بکھری بستیاں، ضلع ملتان اور خانیوال کا پورا علاقہ، سمبڑیال کے اجڑے گھروں کے ملبے، پسرور اور سیالکوٹ کے بے سہارا خاندان، نارووال اور قصور کے زیرِ آب دیہات، اوکاڑہ کے چھوٹے گاؤں، وہاڑی اور بورے والا کے ریتلے کنارے، لاہور کی نواحی بستیاں، میاں چنوں کے گاؤں، پھالیہ، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ، پاکپتن، وزیرآباد ، جھنگ اور بونیر سمیت سب جگہیں اس کی خدمت کے چراغوں سے منور ہو رہی ہیں۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ سو سے زائد مقامات پر فلڈ ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں، جہاں متاثرہ خاندانوں کو محفوظ رہائش، خیمے، بستر ، کھانا اور بنیادی ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ سیلاب زدہ لوگ اس کٹھن گھڑی میں کچھ سکون اور تحفظ پا سکیں۔
ہر کیمپ میں روزانہ تین وقت کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، جگہ جگہ دسترخوان بچھا دیئے گئے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ ہر فرد تک غذا پہنچائی جا رہی ہے تاکہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے ۔ بچوں کی معصوم ہنسی، خواتین کی خاموش دعائیں اور بزرگوں کی آنکھوں میں امید ، یہ سب اس خدمت سے زندہ ہیں ۔ مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس بھی قائم کئے گئے ہیں، جہاں بچوں، خواتین اور بزرگوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ ٹرسٹ نہ صرف ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے بلکہ دلوں میں امید اور حوصلے کے چراغ بھی روشن کر رہا ہےاوردکھوں کی نگری میں روشنی کی کرن بن گیا ہے۔فصلیں اجڑ جانے کے باعث جانور بھی بھوک جیسی مصیبت سے محفوظ نہیں رہے، جانوروں کی بھوک مٹانے کے لئے اس ٹرسٹ کی طرف سے نارنگ منڈی کے دیہات کجلہ، کوٹلی بریار، راجپورہ ، جاجو گل ، پسیانوالہ ، جنڈیالہ کلساں اور میرووال میں کئی من چارہ تقسیم کیا گیا تاکہ مویشی بھوک سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ امدادی کارروائیاں انسانی خدمت کے ساتھ ساتھ جانوروں کے تحفظ کا عملی مظاہرہ ہیں، یہ خدمت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ٹرسٹ مشکل کی اس گھڑی میں ہر زندگی کی قدر کرتا ہے، چاہے کوئی انسان ہو یا جانور۔
اس ادارےکے ریلیف کیمپوں میں اندھیری راتوں میں بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ جب تیز بار ش ہوتی ہے تو بچے خیموں میں محفوظ ہوتے ہیں ، مائیں دعا کرتی ہیں اور باپ اپنے خاندان کی حفاظت کیلئے دعاگو رہتے ہیں۔ دلوں کو خوف اور مایوسی سے پاک کرتے ہوئے ہر بھوکے پیاسے کی جان بچانےکیلئےاس کے رضاکار پچھلے اٹھارہ بیس دنوں سے دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہر جگہ، ہر وقت یہ صرف امداد نہیں، انسانیت کی خدمت ہے ، امید کی کرن اور حوصلے کا پیغام ہے۔
یہ ٹرسٹ دکھ اور آزمائش کے ان مشکل ترین لمحات میں یہ ثابت کر رہا ہے کہ انسانی خدمت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، خدمت حدود و قیود کی قائل ہی نہیں، خدمت تو اجڑی زندگیاں بسانے کا نام ہے، زندگی کے خوابوں کی تعبیر کا نام ہے، یہی وہ روشنی ہے جو تاریکیوں میں شمع کی مانند ہے ۔ یہی خدمت دلی سکون اور ایمان کی تازگی کا سبب ہے۔ یہ وسیع اور ہمہ گیر ریلیف مشن نہ صرف سہولیات کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ متاثرہ خاندانوں کے دلوں میں امید کی روشنی بھی جگا رہا ہے۔
صاحبو ! یادکیجئے وہ لمحے کس قدر تکلیف دہ تھے، جب انسانی زندگی کی کشتیاں تند و تیز پانی کی بے رحم لہروں میں ڈول رہی تھیں، خواب بہہ رہے تھے اور انسانیت کی امیدیں دم توڑتی محسوس ہو رہی تھیں، انہی گھپ اندھیروں میں عبد الرزاق ساجد نے ایک چراغ جلایا، ویلفیئرٹرسٹ کا چراغ جو گہرے پانیوں میں ڈوبی بستیوں تک روشنی اور حوصلے لے کر پہنچتا رہا، خدمت کے اس سفر میں خالی برتن بھرتے گئے ، بلکتے بچوں کے خشک ہونٹوں پر تازگی آنے لگی، بیماروں تک دوا پہنچی تو یوں لگا جیسے روح تک مسیحائی آ گئی ہو۔ ان کو بہت حد تک اطمینان ہے کہ ہزاروں خیمے لگنے کے بعد کھلے آسمان تلے روتے ہوئے بچوں اور کمزور خواتین کو کم از کم ایک عارضی چھت تو میسر آ گئی ہے ۔ اسکا ہر کیمپ سکون کی بستی بن چکا ہے، ان بستیوں میں ہر خیمہ پر سکون گھر کا روپ دھار چکا ہے، جہاں اب بھوک اور پیاس کا تصورتک نہیں۔ اس خدمت کے باوجود ان کے روبرو جب بھی کوئی سیلاب زدہ بچہ آتا ہے تو انہیں خورشید رضوی کا شعر یاد آ جاتا ہے کہ
جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں
اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ