• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر سے لے کر کراچی تک پورا ملک منہ زور سیلابی ریلوں اور طوفانی بارشوں کی زد میں ہے۔ اب تک سینکڑوں افراد شہید، ہزاروں زخمی اور لاکھوں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں۔ اربوں روپے کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔ اگر ہم ملکی، قومی اور انفرادی سطح پر چند کام کرلیں تو مزید جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ حکومت کے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ عوام کو بروقت درست اور صحیح راہنمائی فراہم کرے۔ نمبر دو،سیلابی علاقوں کی ڈرون طیاروں اور کیمروں سے نگرانی کرے۔ نمبر تین، پوری حکومتی و ریاستی مشینری عوام کو ریلیف اور مدد فراہم کرنے میں جت جائے۔ نمبر چار،فوری امداد اور حقیقی صورت حال جاننے کے لیے آگاہی ہیلپ لائن قائم کرے۔ نمبر پانچ،دریا کنارے اور ندی نالوں کے دائیں بائیں قائم کچی آبادیوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کرے۔ عوام کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ وہ بلا ضرورت شدیدہ اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔بجلی کے کھمبوں، ٹرانسفارمرز اور ننگی تاروں سے دور رہیں۔ دوفٹ سے زائد کھڑے پانی میں نہ جائیں۔ ان حالات میں سیروتفریح پر ہرگز نہ جائیں۔ اپنے پاس چھتری لازمی رکھیں۔ جبکہ حکومت اور عوام دونوں کو مشترکہ طور پریہ بھی کرنا چاہئےکہ سیلابی ریلوں، دشوار گزار راستوں اور حادثات میں پھنسے ہوئے افراد کو ملکر نکالنے کی کوشش کریں۔ مشکل وقت میں ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ افراتفری اور انتشار ہرگز نہ پھیلائیں۔ فیک نیوز، جعلی تصاویر اور تباہی کی پرانی ویڈیوز بالکل آگے شیئر نہ کریں۔ توبہ استغفار کریں اور اللّٰہ کی طرف رجوع کریں۔ ان حالات میں اسوہ حسنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے راہنمائی لیں۔ صبح شام کی مسنون دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں کہ اللّٰہ ہی مسبب الاسباب اور حالات بدلنے والے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس صدی میں ایٹمی دوڑ کی وجہ سے فطری نظام بری طرح مجروح ہوا ہے۔ فضامیں اس قدر آلودگی ہے کہ ماہرین فلکیات وارضیات کے مطابق آئندہ سالوں میں شدید گرمی، حبس اور سردی ہوگی۔ دنیا تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں اگر اب تیسری عالمی جنگ جو کہ ایٹمی جنگ ہوگی ،چھڑگئی تو اتنی تباہی آئے گی کہ شاید حضرت نوح علیہ السلام کے دور کی طرح پوری دنیا ختم ہوکر رہ جائے۔ ماہرینِ ارضیات کی مختلف رپورٹوں کے مطابق آئندہ پندرہ بیس سالوں میں خوفناک زلزلے، سیلاب، آندھی طوفان اور تباہی آنے کا شدید امکان ہے۔ ویسے پچھلے بیس سالوں سے امریکا، یورپ، ایشیا پوری دنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آبھی چکے ہیں۔ سونامی کی تباہی کے آثار اب تک ہیں۔ 8اکتوبر 2005ء میں پاکستانی علاقوں سرحد اور کشمیر میں آنے والے شدید ترین زلزلے کی صورت میں ایک ایسا کرب ناک انسانی حادثہ پیش آیا تھاجس کے نتیجے میں آناً فاناً سوا لاکھ سے زائد انسان مرگئے تھے۔ ہزاروں معذور ہوئے اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔ میانمار میں اس قدر شدید زلزلہ آیا تھاکہ گائوں کے گائوں، شہر کے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ 2 لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔ سیکڑوں خاندان اُجڑگئے۔ اسی طرح 12مئی 2008ء کو چین میں بھی شدید زلزلہ اور طوفان آیاتھا۔ چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان میں ہولناک زلزلے کے علاوہ لینڈ سلائیڈنگ، دریائوں میں شدید طغیانی، بارش اور سیلاب سے ہزاروں گھر، سرکاری ونجی املاک زمین بوس ہوگئیں تھیں۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7.9 ریکارڈ کی گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔ 95 ہزار سے زائد مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے ہلاک ہوئے۔ چین میں زلزلے اور طوفان کے ایک جھٹکے میں 22؍ ارب کا نقصان ہواتھا۔زلزلے، حوادث اور طوفانوں سے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں آتے ہیں؟ اس کے مختلف مادی اور روحانی اسباب ہیں۔ قرآن پاک میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔‘‘ انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ توبہ اور رجوع کریں۔ یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’ٹھہر جا! ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔‘‘ اور پھر آپ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے زلزلوں اور حوادث کا ایک بڑا سبب گناہ، ناانصافی اور ظلم وستم بھی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اس زلزلے کا سبب لوگوں کے گناہ ہیں۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ تنبیہ فرماکر توبہ واستغفار کروانا چاہتے ہیں۔‘‘ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اللّٰہ تعالیٰ اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنہری اور ابدی تعلیمات کی روشنی میں سوچنا اور غوروفکر کرنا چاہیے۔ ہمیں غیرمسلم اور لادینوں کی طرح سوچنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر چیز کے دو اسباب ہوتے ہیں: ایک روحانی دوسرا مادی۔ زلزلے، طوفان اور سیلاب کے دونوں پہلوئوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسلام نے مادی اسباب سے قطعاً منع نہیں کیا بلکہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا ہے۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ مسلمان صرف روحانی سبب کو ہی لیتے ہیں اور مادی کو بھول جاتے ہیں۔ بے شک زمین کے اندر ایسے بخارات ہیں جو محتبس ہوجاتے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں۔ اگر زمین کے مسام تنگ ہوجاتے ہیں تو ان کی حرکت سے زمین حرکت کرنے لگتی ہے۔ بعض ان بخارات کی علت اجزائے ناریہ کو بتلاتے ہیں جو کوہِ آتش فشاں کے گردوپیش میں مجتمع ہوجاتے ہیں اور بعض آثارِ طبیعہ سے اسی کا علت ہونا صحیح ثابت ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر یہ زلزلے، طوفان اور عذاب انسانوں کے گناہوں کے سبب ہیں تو پھر یہ آفات غیرمسلم ممالک اور خصوصاً اللّٰہ تعالیٰ کے نہ ماننے والوں پر آنے چاہئیں۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر کیوں؟ اس کا جواب یوں سمجھیے جس طرح اگر کسی شخص کا دورانِ خون ہی خراب ہوجائے تو پھوڑے پھنسیاں کہیں بھی نکل سکتی ہیں۔ اسی طرح مجموعی طورپر جب انسانوں کے اعمال خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم خراب ہوجائیں۔ ہرطرف ظلم وستم، ناانصافی اور گناہوں کا راج ہو تو اس کے اثرات کہیں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ عذاب، زلزلے اور طوفان ہمیشہ مسلمانوں ہی کے علاقوں میں نہیں آتے بلکہ امریکا، یورپ میں بھی آتے رہے ہیں۔

تازہ ترین