اس جدید دور میں وہی ممالک تر قی کی راہ پر گامز ن ہیں جوموجودہ ٹیکنالوجیز سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت نے پوری دنیا پر غلبہ پا لیا ہے اور مستقبل میں اس کے سبب دنیا بھر میں مزید انقلاب آئے گا۔
اگر یہ کہاں جائےکہ مصنوعی ذہانت جدیدت کے میدان میں اہم کردار ادا کررہی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس حوالےسے اب تک کیا کیا چیزیں منظر ِعام پر آئیں ہیں ۔زیر نظرمضمون میں چند چیزوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔
خود چلنے والی گاڑیاں
شطرنج کے ذہانت سے بنے ہوئے سیٹس دودہائیوں سے موجود ہیں، اس عرصے میں مشینی ذہانت میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب ایک نجی کمپنی کی گاڑی میں گوگل کا تیار کردہ برقی دماغ نصب کیا گیا ،اس دماغ میں سیکڑوں سینسرز لگے ہیں جو گاڑی کو ہائی وے اور مصروف شاہراہوں پر بغیر کسی انسانی مداخلت کے محو سفر رکھتی ہے۔
اس سے خود کار ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کا آغاز ہو جائے گا جو آپ کی ایک سادہ سی ہدایت پر گاڑی کو منزل کی طرف گامزن کردیں گی۔ ان خود کار کاروں میں ویڈیو کیمرہ، Laser Range Finder اور ریڈار سینسر نصب ہیں، تا کہ دوسری متحرک یا جامد اشیاء کے ٹکراؤ سے بچا جا سکے اور گاڑی سڑک پر سگنل کی با لکل درست اقدام میں پابندی کرسکے۔
اس میں مسلسل رہ نمائی کے لئے GPSسسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کار کا تصور گوگل انجینئر ز اور Stanford Artificial Intelligence Laboratoryکے سربراہ Thruneنے پیش کیا۔ مصنوعی ذہانت کےحامل اور خود کار ڈرائیونگ نظام کی حامل کاروں کے آنے سے ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
خلا نورد ، مگر وہ روبوٹس ہیں
خلا نورد کیا کرتے ہیں؟ طاقت ور ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ایک رات کے بعد دوسری رات میں، اور ایک سال کے بعد دوسرے سال میں آسمانوں کی خاک چھانتے ہیں یہ تھکا دینے والا کام ہے جو صبرآزما بھی ہے اور مستقل مزاجی بھی مانگتا ہے۔ اب انسانوں کو اس صبر آزما مرحلے سے نکالنے کے لیے روبوٹس آگئے ہیں۔ اب آسمانوں کی خاک چھاننے کا تھکا دینے والا کام بعض تجربہ گاہوں میں روبوٹس انجام دے رہے ہیں۔بعض ستاروں کی روشنی ہلکی اور تیز ہوتی ہے۔
اس سے سائنس دان یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کائنات کی وسعت ایک جگہ جامد نہیں ہے بلکہ یہ مستقل پھیل رہی ہے، جیسے جیسے کہکشائیں ایک د وسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں ویسے ویسے کائنات وسعت پذیر ہو رہی ہے اور اس کو دھکا ایک پراسرار طاقت Dark Energyسے مل رہا ہے۔ یہ متغیر ستارے ایک لمحے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر فوراً غائب ہو جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے ان کو transients کہا جاتا ہے۔ Mount Palomer مشاہدہ گاہ پر ان ستاروں کے تجزیے کے لیے مصنوعی ذہانت کااستعمال کیا جارہا ہے۔ طاقت ور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ان تصویروں کا تجزیہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے جو اس میں مل جانے والی آوازوں کے اشاروں کو صاف کر کے واضح تصویر فراہم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ Super nova جو کہ عارضی طور پر ظاہر ہوتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے، اس کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کمپیوٹر کا سماجی نیٹ ورک بنایا گیاہے جو کہ ایک اکائی کی صورت میں کام کریں گا۔ چلی، ہوائی، آسٹریلیا، جنوبی افریقا، ٹیکساس Canary Island میں رکھے گئے کمپیوٹر میں موجود خصوصی سافٹ ویئرز کے ذریعے ان کو آپس میں منسلک کیا جائے گا اور یہ ایک دوسرے سے ابلاغ کر سکیں گے۔
ننھے روبوٹس
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مستقبل کی فوجیں ذہین روبوٹس پر مشتمل ہوں گی جن کو ہزاروں میل کے فاصلے سے کنٹرول کیا جائے گا۔ پاکستان کے شمالی حصوں میں ہونے والےڈرون حملوں میں ڈرون کو کس طرح کنٹرول کرنا اوراستعمال کرنا ہے ،اس پر مسلسل کام جاری ہے۔
تاہم، ننھے ریموٹ کنٹرول Quadrotor Robots تیار کیے گئے ہیں جو کہ انتہائی پیچیدہ راستے بناتے ہوئے اڑ سکتے ہیں۔ یہ روبوٹس جدید جنگوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے۔
یونیورسٹی آف پینی سلوانیہ کی Automation, Sensing and Perception (GRASP) لیب نے حال میں اس چیز کا مظاہرہ کیا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے روبوٹس کس طرح غول میں اڑتے ہوئے ایک دوسرے سے باہم مل کر طے شدہ ہدف حاصل کرتے ہیں۔
ان روبوٹس کو Quadrotor Robotsکا نام دیا گیا ہے، کیوںکہ ان میں چار Propeller نصب ہیں۔ جن کی مدد سے ان کی پروازکو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ ان میں اعصابی گیسوں کے تھیلے ہوتے ہیں جن کو فوجیوں کوبے ہوش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ ایک وقت میں سیکڑوں مقامات پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ دھماکہ خیز مواد گرا سکتے ہیں۔ اس طرح دشمن کی صفوں میں وسیع تباہی اور انتشار پیدا کرسکتے ہیں۔ اڑنے والی روبوٹک مشین کسی شے کے گرد گردش کرسکتی ہے اور انتہائی ذہانت کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتی ہیں۔
اس کے ساتھ یہ Automated Swarm Behavior کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ ان میں نصب چھوٹے کیمرے دشمن کی جاسوسی اور اپنی تنصیبات کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے کے لیے بھی کارآمد ہیں۔ مصنوعی ذہانت اکیسویں صدی کی سب سے زیادہ انقلابی (Transformative) ٹیکنالوجیوں میں سے ایک بن چکی ہے، جو انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو متاثر کر رہی ہے۔
صحت عامہ سے لے کر نقل و حمل ، تعلیم سے تفریح تک مصنوعی ذہانت مختلف شعبوں میں شاندار اطلاقات (Applications) کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔اسی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی کی نیشنل ٹاسک فورس اور ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت (Technology-Driven Knowledge Economy) سے متعلق ٹاسک فورس نے اس تیزی سے ابھرتے ہوئے میدان میں کئی قومی منصوبے ترتیب دیے ہیں، جو اس وقت پاکستان میں نافذ العمل ہیں۔
صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کا انقلاب
مصنوعی ذہانت نے طب و صحت میں انقلاب برپا کر دیا ہے، جہاں اس نے کارکردگی، درستگی اور علاج کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ مشین لرننگ الگوردمز (Machine Learning Algorithms)، پیچیدہ طبی ڈیٹا سیٹس جیسے کہ میڈیکل امیجنگ، جینیاتی ترتیب اور مریض کی طبی تاریخ کا تجزیہ کر کے امراض کی تشخیص بے مثال درستی سے کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، IBM Watson Health جیسے نظام آنکولوجسٹ (Oncologists) کو کینسر کی تشخیص اور علاج میں مدد دے رہے ہیں، جو لاکھوں طبی مقالات اور کلینکل ٹرائلز کا تجزیہ کرتے ہیں۔روبوٹ سرجری کے نظام جیسے da Vinci Surgical System سرجنز کو کم سے کم مداخلتی سرجری کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں، جس سے صحت یابی کا دورانیہ کم اور نتائج بہتر ہوتے ہیں۔
اسی طرح مصنوعی ذہانت سے تقویت یافتہ پہننے کے قابل آلات جیسے اسمارٹ واچز ، مسلسل اہم حیاتیاتی علامات (Vital Signs) کی نگرانی کرتے ہیں، اور دل کی بے ترتیبی اور ذیابیطس جیسے امراض کی بروقت شناخت ممکن بناتے ہیں۔
تعلیم میں مصنوعی ذہانت کی انقلابی تبدیلی
مصنوعی ذہانت تعلیم کو زیادہ شخصی نوعیت (Personalized)، قابل رسائی اور مؤثر (Efficient) بنا رہی ہے۔ ایڈاپٹو لرننگ پلیٹ فارمز (Adaptive Learning Platforms) الگوردمز کے ذریعے طالبعلم کی رفتار، استعداداور سیکھنے کے انداز کے مطابق تعلیمی مواد فراہم کرتے ہیں۔
لینگویج پروسیسنگ ٹولز (Language Processing Tools) جیسے Grammarly اور Duolingo تحریر اور زبان سیکھنے میں فوری فیڈبیک دے کر خود سیکھنے کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ادارہ جاتی سطح پر EdTech کمپنیوں نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے غیرمعمولی مالی ترقی کی۔
صنعت، زراعت اور معیشت میں مصنوعی ذہانت کا کردار
چوتھے صنعتی انقلاب کے مرکز میں اب اے آئی موجود ہے، جہاں آٹومیشن، پیشگوئی پر مبنی مرمت اور ذہین ڈیزائن جیسے تصورات صنعتوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔ کارخانوں میں اے آئی سے لیس روبوٹس زیادہ تیزی اور درستی سے دہرائے جانے والے کام انجام دے رہے ہیں۔ (Collaborative Robots) انسانی کارکنان کے ساتھ کام کر کے مجموعی کارکردگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔
زراعت میں درست زراعت (Precision Farming) کی بدولت زمین کی صحت، موسم کے نمونے اور فصل کی حالت کا تجزیہ کر کے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اے آئی سے چلنے والے ڈرونز کھیتوں میں کیڑوں کی شناخت اور پانی کی ضرورت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ زرعی روبوٹس بیج بونا، جڑی بوٹیوں کو ختم کرنا اور فصل کاٹنا جیسے محنت طلب کام خودکار انداز میں انجام دے رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا مایوس کن پہلو
کیا مصنوعی ذہانت کسی دن ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گی؟ خود سے ارتقاء پذیر ہونے والی مشین جن کے اندر دوسری مشینوں کو اپنے سے زیادہ بہتر بنانے کی صلاحیت ہوگی،ان کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ کو الیکٹرانک شطرنج کھیلتے ہوئے حیرت ہوئی ہو کہ یہ مشین کس قدر ذہین ہے اور یہ کس طرح اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے آپ کو شکست دے دیتی ہے۔
اس وقت جو روبوٹس موجود ہیں وہ عام سے امور مثلاً آپ کے گھر کی صفائی اور آپ کی سادہ ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن اب جدید روبوٹس میں زیادہ پیچیدہ نظام مربوط کر دیا گیا ہے یہ روبوٹس تیراکی کرتے ہوئے شخص کے متعلق اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ ڈوبنے والا ہے اور لائف گارڈ کی مدد کر تے ہیں۔
اس کے علاوہ سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے یہ ڈرائیورکو اس بات سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ آگے ٹریفک پھنسا ہوا ہے۔ محققین اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ دن دور نہیں ہے جب مصنوعی ذہانت کی وحدانیت تخلیق ہوجائے گی اور یہ زنجیری تعامل کے قابو سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد ایک مشین خود دوسری بہتر مشین تیار کرنے لگے گی۔
علمی معیشت کی جانب پیش قدمی
اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجز جیسے مصنوعی ذہانت، جدید جینومکس ، توانائی کے ذخیرہ کے نظام ، ہائیڈروجن آئسوٹوپس کے انجماد ، پودوں کی بایوٹیکنالوجی اور بایونکس ان ممالک کی معیشتوں کو نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہیں جو اعلیٰ معیار کی تعلیم، سائنس اور اختراع میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ اس بات میں ہے کہ وہ ان تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔
اگرچہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کچھ قابل قدر پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمیں قرضوں کے دلدل اور گرتی ہوئی معیشت سے نکلنے کے لیے اعلیٰ ویلیو ایڈیڈ مصنوعات جیسے دوائیں، انجینئرنگ مصنوعات، معدنیات اور آئی ٹی مصنوعات تیار اور برآمد کرنی ہوں گی۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قدرتی وسائل پر مبنی معیشت سے نکل کر ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف گامزن ہوں۔یہ تبدیلی ایک وژنری، دیانت دار اور ٹیکنالوجی سے آشنا قیادت کے بغیر ممکن نہیں۔