• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سائنس دانوں کی تحقیق کہتی ہے کہ جھیل قدرتی عوامل سے وجود میں آتی ہے اور پانی کے بغیر ایک گڑھا، یعنی نشیب، ہوتا ہے، جسے ارضی علوم میں ’’طاس‘‘ کہتے ہیں
 سائنس دانوں کی تحقیق کہتی ہے کہ جھیل قدرتی عوامل سے وجود میں آتی ہے اور پانی کے بغیر ایک گڑھا، یعنی نشیب، ہوتا ہے، جسے ارضی علوم میں ’’طاس‘‘ کہتے ہیں 

حال ہی میں ہونے والی تحقیق میں جھیل کو سطح زمین پر موجود طبعی خدوخال کا ایک اہم جُز قرار دیا گیا، جس کی تخلیق قدرتی عوامل مثلاً: ٹیکٹونک حرکات کے توسط سے عمل میں آئی ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں موجو د ہے۔جسے بلند کثافت کی معدنی اجزاءکی دریافت کے ساتھ ساتھ نقل وحمل اور برقی توانائی کے حصول اور استعمال کا ایک جدید وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔

جھیل کی سطح کو زمین پر موجود طبعی خدو خال کا ایک اہم اور خوبصورت جُزو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خشکی کی منظر کشی یعنی آرٹ اورشاعری میں اسے بہت مقبولیت حاصل رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی اہمیت زیادہ اجاگر ہوئی جب اسے نقل وحمل، صنعتوں، زراعت اور برقی توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے لگا اور اس سے انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہونے لگے۔ پھر یہ کہ بعض جھیلوں میں بلند کثافت کی حامل گراں قدر معدنی اجزاء کی مرکوزیت (مثلاً سونا، ہیرا) کا بھی علم ہوا تو اس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ 

یہی وہ منزل ہے جب سائنس اور اہلِ سائنس نے جھیل کی تخلیق کے قدرتی پوشیدہ وجوہات کی کھوج لگانے میں سرِگرداں ہوگئے، جس کے توسط سے اس حقیقت سے آگاہی حاصل ہوئی کہ جھیل دراصل سطح زمین پر ایک ایسی ساخت ہے، جس کی وقوع پذیری قدرتی عوامل کے ماتحت ہوتی ہے۔ 

یہ ساخت پانی کے بغیر ایک گڑھا یعنی نشیب ہوتا ہے جسے ارضی علوم میں ’’طاس‘‘ (Basin) کہتے ہیں، جس میں مختلف ذرائع سے پانی مقید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ اطرافی علاقوں میں پانی کے چھوٹے بڑے ذخیرہ کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ 

جو چاروں جانب خشکی سے گھرا ہوتا ہے جو ’’جھیل طاس‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا پانی میٹھا بھی ہوتا ہے اور نمکین بھی جس کا مقام اور قیام مستقل بھی ہوتا ہے اور عارضی بھی۔ بعض اوقات جب دریا کی گذرگاہ جو پیج وخم کھاتا ہوا سفر کرتا ہے تو اس کاکوئی نرم حصہ چینل سے الگ ہوکر کمانی دار جھیل (Oxbow Lake) کی شکل میں زمین پر موجود ہے۔

دنیا بھر میں دریا کا پانی ایک پیچیدہ چکر سے گذرتا ہے جسے ’’آبی چکر‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً سمندر کا پانی سورج کی تپش سے بخارات بن کر عمل تبخیر کی زد میں آکر بادل کے درمیان سے ہوتے ہو’’عمل تکثیف‘‘ سے گذر کر بارش کی صورت میں دوبارہ سطح زمین پر ندی، نالوں اور دریاؤں کی شکل اختیار کرکے اطراف میں موجود طاس میں جمع ہوکر بہتا ہوا واپس سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ 

اس سفر کے دوران اپنی گذرگاہ سے بھٹک کر قریبی موجود جھیل طاس میں مقید ہوجاتے ہیں۔ تقریباً تمام ارضیاتی عمل کے دوران طاس یا نشیب کی تشکیل جو پانی کے قید ہوجانے سے جھیل بن جاتی ہے۔ بشرط یہ کہ پانی کی سپلائی برابر جاری رہے۔ کوئی بھی معمولی سا نشیب نم ادوار میں چھوٹی جھیل یا تالاب میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بڑی جھیل جو مستقل قائم رہتی ہے۔

اس کا انحصار اس عمل پر ہوتا ہے جو طاس کے بننے کے دوران وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مثلاً :کوئی بھی ٹیکٹونک حرکات ایک منتقل اور پائیدار طاس کی تخلیق کرسکتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ جھیل طاس میں نمودار ہوجاتی ہے، اس حوالے سے خطا (Fault) یعنی چٹانوں کا ٹوٹ کر اپنی جگہ سے دو بلاک میں سرک جانا۔ اکثر وبیشتر مختلف قسم کے جھیل طاس کی تخلیق کرتا ہے۔ 

اگر خطا بلاک ایک طرف سے جھکا ہوا ہو تو جھیل جھکے ہوئے بلاک کے درمیانی نشیب میں تشکیل پاتا ہے۔ سن اینڈرس فالٹ (San Andreas Fault) کیلفورنیا کے توسط سے اس طرح کی کئی جھیلیں جنوبی فرانسیکو سے کچھ میلوں پر موجود ہیں۔

جھیل کی تشکیل گریبن خطایا افتراقی وادی (Rift Valley) میں بھی پائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے گہری ’’جھیل بیکل‘‘(Lake Baikal) جو سینٹرل ایشیا میں موجود ہے۔ مختلف قسم کی زمینی حرکات کی تصدیق کرتی ہے، جس کی گہرائی 5712فیٹ ہے، بڑی جسامت اور گہرائی کی رفٹ وادی مشرقی افریقا میں پائی گئی ہے جن میں سے دو رفٹ وادی بڑی جھیل کی صورت میں موجود ہے۔ مغربی امریکا میں پہاڑوں کے سلسلوں میں اس طرح کی جھیلیں پائی جاتی ہیں لیکن یہ آب و ہوا خشک ہونے کے ساتھ اوجھل ہوجاتی ہے۔

مثلاً: آتشی کارکردگی سے تشکیل پانے والی آتشی دھانہ (Crater)کسی وقت بھی پانی سے پُر ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں ایک جھیل طاس سامنے آتی ہے۔ اویگان(Oregon)میں موجود آتشی دھانہ ایسی جھیل کی ایک مثال ہے۔ آتشی کا رکردگی کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی جھیل کی تخلیق ہوتی ہے۔ مثلاً: مڈبہاؤ، قطعۂ ارض کا سرکنا اور تودوں کے حرکات سے بھی جھیل کی تکمیل عمل میں آتی ہے۔

خشک آب و ہوا والے علاقوں میں پانی ان نشیب میں جمع ہوکر چھوٹی جھیل کا منظر پیش کرتی ہے جو آب و ہوا کے تسرفی عمل سے بنتی ہیں جیسا کہ ریتیلی دلدل (Sand Dune) کے درمیان موجود نشیب جھیل میں  تبدیل ہوتے ہوئے نظر آتی ہیں جو خشک آب و ہوا کی وجہ سے عارضی ہوتی ہیں۔ دریائی عمل کے توسط سے بھی زمین کی خدوخال میں جھیل نمودار ہوتی ہیں، جس میں سب سے اہم ’’کمانی دار جھیل‘‘ ہے جو بنیادی دریائی چینل کے بعض حصوں کے کٹ کر الگ ہونے کی وجہ سے تشکیل پاتی ہے۔

مثلاً: اگر دریا کے کنارے پانی کی تیز دھاروں کے حملوں کی وجہ سے کٹتی رہتی ہیں تو کنارے پر موجود درخت اور جھاڑیاں چینل میں گرتی رہتی ہیں۔ مزید یہ کہ دیگر ملبے اس رکاوٹ پر جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے رکاوٹ کے عقب میں جب پانی واپس ہوتا ہے تو ایک جھیل سطح زمین پر نمودار ہوتی ہے۔ دریا کا ڈیلٹائی بردار عمل بھی جھیل کے پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ اکثر ڈیلٹائی بلند بار کی شاخوں پر مشتمل ہوتا ہے جو بعد میں اصل چینل سے جا ملتا ہے۔ 

یہ دراصل بڑے دریا کا راستہ روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ بعض اوقات ڈیلٹائی عمل سے دریا کے دھانے پر ڈیلٹا کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس قسم کی ایک جھیل کی مثال کیلیفورنیا میں سالٹن (Salton) بحیرہ ہے جو ’’کولوراڈو‘‘ دریاکا ڈیلٹا بنانے کی وجہ سے سمندر سے کٹ کر بحیرہ یا جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ گلیشیئر کے پگھلنے کی وجہ سے بھی جھیل کی تخلیق ہوتی ہے۔

نیویارک میں 100 سے زیادہ جھیل ایسی ہیں جو ٹھوس چٹانوں کی برف کی شیٹ سے ’’گارج‘‘ (گول چھینی سے چھیلنے کے طرز کی ساخت) نشیب کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں، جس سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ قدیم زمانے میں اس خطر کے اوپر گلیشیئر موجود تھے۔ جب گلیشیئر پگھلنے لگے تو یہ تخلیق شدہ نشیب پانی سے بھرگیا ،جس سے دنیا کی کئی بڑی جھیلیں وجود میں آئی ہیں، جس کا پانی تازہ اور میٹھا ہوتا ہے۔ 

یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گلیشیئر اور دریا سے تشکیل پانے والی جھیل تازہ (میٹھا) پانی کی ہوتی ہیں لیکن جھیلیں نمکین بھی ہوتی ہیں ،جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تقریباً تمام جھیلوں کا اخراجی نالی (Out let) ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے حل شدہ نمکیات جو دریا کے پانی کے ساتھ چشموں کی صورت میں بہتے رہتے ہیں۔ آخر کار سمندر میں شامل ہوجاتے ہیں، اگر جھیل میں اخراجی نالی نہیں ہوگا تو صورت حال مختلف ہوجاتی ہے۔ 

یہ اس وقت ہوتا ہے جب جھیلوں میں پانی کے دو طرفہ نظام میں خلل پیدا ہوجائے۔ پانی جھیل سے خارج بھی ہوتا رہتا ہے اور شامل بھی تو ایسی جھیلیں تازہ پانی کا ذخیرہ ہوتی ہیں جسے میٹھے پانی کی جھیل کہتے ہیں لیکن جن جھیلوں کے اطراف پانی شامل تو ہوتا ہے لیکن اخراج نہیں ہوتا وہ نشیب میں ساکن رہتا ہے۔ خصوصاً سمندر کے اطراف موجود جھیلوں کا پانی۔

جہاں پانی کا دو طرفہ نظام درست نہیں ہوتا اور وہ نمکین ہوتی ہیں۔ اس قسم کی جھیل تقریباً سمندر سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بحریہ (Sea) کہلاتی ہیں جو عمل تبخیر کی زد میں ہونے کی وجہ سے اپنی حل شدہ نمکیات خصوصاً سوڈیم کلورائیڈ طاس میں نیچے رہ جاتی ہیں اور پانی بخارات بن کر فضاء میں فرار ہوجاتا ہے۔ اسی صورت حال میں نمکین جھیل تشکیل پاتی ہیں۔

مغربی ایشاء (ایشیائے کوچک) میں ایران کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیل ہے جو بحریہ کیسبین (Casbian Sea) کے نام سے ہے۔ اس کی تشکیل اس وقت ہوئی جب زمینی حرکات کے اوپری اٹھان کی وجہ سے سمندر کا ایک بازو کٹ کر الگ ہوگیا۔ اس طرح سے مشرق وسطیٰ میں بحیرہ مردار (Dead Sea) اور امریکا کی مغربی ریاست یوٹا (utah) میں واقع بڑی نمکین جھیل (Great Salt Lake) ہے۔ 

یہ جھیل تقریباً ساڑھے تین سو میل لمبی اور ایک سوساٹھ میل چوڑی ہے۔ جسامت کے حوالے سے افریقا میں واقع ’’ وکٹوریہ جھیل‘‘ دوسرے نمبر پہ ہے۔ پاکستان میں بھی تازہ پانی کی جھیل موجود ہے۔ ایک خوبصورت جھیل پاکستان کے شمالی علاقہ میں موجود ہے۔ جسے جھیل ’’سیف الملوک‘‘ کہتے ہیں یہ تازہ پانی کی جھیل ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ میں کئی جھیلیں موجود ہیں ،جس میں کنچر جھیل اور منچر جھیل کو بڑی فوقیت حاصل ہے۔

جھیلیں دوسری قدرتی ساخت کے مقابلے میں بہت ہی عارضی مقام ثابت ہوئی ہیں اور مسلسل خشک ہونے کے عمل سے گزر رہی ہیں، جس کی وجہ سے اب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جو ذرائع ان جھیلوں کو پانی فراہم کرکے تازہ دم رکھتے ہیں وہی کسی نہ کسی حوالے سے اس کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

جب جھیل کے طاس کی تخلیق ہوتی ہے تو اس کو پانی فراہم کرنے والا دریا رفتہ رفتہ اس کے فرش میں سلٹ، کلے، گا د اور گارے کی ایک دبیز تہہ پھیلاتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے طاس کا فرش بتدریج وقت گزرنے کے ساتھ بھرتا جاتا ہے اور رسوب کی تہہ نشینی سے جھیل کے مرکز میں ڈیلٹا بتا تے جاتے ہیں جو آخر کار پورے طاس کو رسوب سے بھر دیتے ہیں۔ 

ایک سروے کے مطابق یہ جھیل آنے والے صدیوں میں پوری طرح بھر جائے گی۔ جھیل طاس کی بھرائی ان ملبوں سے بھی ہوتی رہتی ہے جو اطرافی ڈھلوان سے تسرف کے ماتحت جمع ہوتے رہتے ہیں۔ جھیل کے پانی کی لہروں کے ردعمل سے بھی کنارے شکست و ریخت ہو کر رسوب کو طاس میں ہند نشین کرتے ہیں۔ 

اکثر اوقات جنگل کے حدود کے گرد مسلسل جنگلات اور درختوں کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مبلے جھیل کے گرد جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح سے رفتہ رفتہ پوری جھیل ایک دلدل کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔

ساتھ ہی جب علاقے کی گرم اور خشک آب و ہوا کی وجہ سے تسخیری عمل تیز ہو جاتا ہے تو دلدلی علاقوں میں موجود پانی کی کل مقدار بھی بخارات بن کر فضاء میں تحلیل ہو کر ایک نمک جھیل کی تخلیق کرتا ہے۔ اوتھاہ (Utah) میں موجود ’’گریٹ سالٹ جھیل‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید