• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرۂ فضانے مختلف گیسوں کے ہمراہ سیارہ زمین کو گھیر رکھا ہے،ا س میں ایک ایسی گیس بھی شامل ہوتی ہے جسے ’’آکسیجن‘‘ گیس کہتے ہیں جو نہ صرف تمام ذی روح اشیاء کی زندگی کی ضامن ہوتی ہے بلکہ غیر ذی روح اشیا ء کی تخلیق نو میں بھی بڑی فوقیت حاصل ہے، کیوںکہ قشر ارض کے کیمیائی پروسیس کے دوران آکسیجن کا دوسرے عناصر کے ساتھ باہمی ربط اور بندش کے توسط سے کائناتی نظام میں خصوصی طور پر چار ایسی غیر ذی روح مادی اشیاء ازسرنو تخلیق پاتی ہیں جسے سائنسی علوم کا اہم ستون قرار دیا گیا ہے جن میں نارمل آکسائیڈ، اساسی آکسائیڈز (Basic Oxides)، تیزابی آکسائیڈز اور نمکیات شامل ہیں۔ 

جسے مجموعی طور پر ’’آکسائیڈز‘‘ کہا جاتا ہے جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق سطح زمین پر موجود غیر ذی روح اشیاء مثلاً چٹان، معدنی اجزاء اور کچ دھات سے ہوتا ہے، جس کی تصدیق ارضیاتی سروے اور کیمیائی تجزیئے کے بعد ہوجاتی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ زمین کی کیمسٹری کا محور اور مرکز کم و بیش انہیں کے اطراف ہوتا ہے جو ایسی قیمتی وسائل کی تخلیق نو کرتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے جدید معاشرے کی صنعتی اور معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہاں پر ’’آکسائیڈز‘‘ سے مراد آکسیجن گیس کیمیائی لحاظ سے بہت زیادہ متعامل ہوتی ہے (سوائے ’’اوبل گیس‘‘ اور طیران پذیر اشیاء Halogen Matecid) کے اور یہ دوسرے عناصر کے ساتھ آسانی سے تعامل کرتی ہے اور اپنے دو عنصر کے مرکبات بناتی ہے جنہیں آکسائیڈز کہا جاتا ہے گویا دوسرے عناصر دھاتوں (دھاتیں وہ اشیاء ہوتی ہیں جن میں سے بجلی آسانی سے گزر جائے یعنی دھاتیں بجلی کی اچھی موصل ہوتی ہیں) اور غیر دھاتوں (غیر دھاتیں وہ اشیاء ہوتی ہیں جن سے بجلی نہ گزر سکے یعنی غیر دھاتیں بجلی کی خراب موصل ہوتی ہیں) کے ساتھ ثنائی مرکبات آکسائیڈز کہلاتی ہیں۔ 

جب ایک ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن متحد ہوجائیں تو ’’اساسی آکسائیڈز‘‘ کی تخلیق نو ہوتی ہے اسے ہائیڈرو آکسائیڈ گروپ بھی کہتے ہیں جو ایک پروٹون قبولندیا پھر الیکٹرون جوڑے کی دہندہ شے ہوتی ہے۔ 

مثلاً :سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ وغیرہ۔ ایسی شے جو آبی محلول میں ہائیڈروجن مثبت آئن پیا کرے’’تیزابی آکسائیڈز‘‘ کہلاتی ہیں۔ مثلاً: سلفیورک ایسڈ وغیرہ۔ یہ ایک پروٹون دہندہ یا پھر الیکٹرون جوڑے کی قبولندہ شے ہوتی ہے جب کہ ایک ایسا مرکب جس میں مثبت آئن (Cation) ایک اساس سے اور منفی آئن (Anion) ایک تیزاب سے شامل ہوتا ہے’’ نمک ‘‘کہلاتا ہے۔

گویا یہ آئنی مرکب ہوتا ہے جو ایک تیزاب کی کسی اساس کے ساتھ تعدیلی عمل (Neutralization) کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے جو نمک اور پانی کی تشکیل نو کا ذریعہ بنتا ہے۔ مثلاً: ہائیڈرو کلوریک ایسڈ جب ایک اساس (سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ) کے ساتھ تعامل کرتا ہے تو پھر نمک اور پانی محاصل کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ 

دھاتوں کے وہ آکسائیڈ جن میں اساس اور تیزابی آکسائیڈز دونوں کی خصوصیت موجود ہوتی ہے تو وہ دو رخی آکسائیڈ(Ampholeric oxides) کہلاتے ہیں۔ مثلاً: ایلمونیم آکسائیڈ اور زنک آکسائیڈز ۔ غیر دھاتوں کے وہ آکسائیڈز جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہ تو اساسی ہوتے ہیں اور نہ ہی تیزابی یہ تعدیلی آکسائیڈز کہلاتے ہیں۔ 

مثلاً: پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈمختلف آکسائیڈز کی تخلیق نو کے حو الے سے کرہ فضا کا کردار سب سے زیادہ توجہ طلب ہے، کیوں کہ سطح زمین سے 12کلومیٹر بلندی تک ایک ایسا غلاف ہے، جس میں مختلف اقسام کی گیسیں، دوسرے عناصر اور رطوبت موجود ہوتے ہیں۔

اس بلندی پر موجود گیسیں کیمیائی طور پر بہت فعال ہوتی ہیں، اس وجہ سے آکسیجن، کاربن اور ہائیڈرون کے ساتھ انفرادی بندش سے بالترتیب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن آکسائیڈ (آبی بخارات) جیسی غیر دھاتی آکسائیڈز کی تشکیل کرتے ہیں۔ 

دوسری طرف کرہ حجر (Lithosphere) میں موجود دھاتی اور معدنی اجزاء جس میں بظاہر جمود ہوتا ہے اور کوئی نمو نظر نہیں آتا لیکن تجربات اور مشاہدات نے اس حقیقت کو اُجاگر کردیا ہے کہ ان کا سکوت و جمود غیر پائیدار ہوتا ہے اور ان میں بھی نمو اور تغیرات رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً سطح زمین پر نمودار سابقہ قدیم دھاتی اور معدنی بردار چٹانیں گرمی سے پھیلتی ہیں اور سردی سے سکڑتی ہیں۔ 

اس طرح بار بار پھیلنے اور سکڑنے سے اجزاء کی قوت بندش ڈھیلی پڑ جاتی ہے، جس کی وجہ سے دھاتی اور معدنی ذخائر کے جسم پر د راڑیں، جوڑ اور شگاف نمودار ہوجاتے ہیں۔ کرہ ٔارض کی فضا میں موجود بہت ساری گیسوں کو ان کمزور زون کے توسط سے اندر موجود سالمات تک رسائی مل جاتی ہے لیکن اس حوالے سے آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بخارات کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے، کیوں کہ یہ ایک تیز عامل شے ہوتی ہیںجو باآسانی سابقہ قدیم دھاتی اور معدنی اجزاء کے اندرونی جسم میں سرائیت کرکے ایک نئے مرکب کو تخلیق کرتے ہیں۔ 

مثلاً قدیم ابتدائی چٹانیں کئی طرح کی ہوتی ہیں لیکن اس کی ایک قسم ایسی ہوتی ہے جو لوہا بردار (Iron Bearing) چٹانیں کہلاتی ہیں، جس کی نمائندگی اولیوین (Olivin) اور پائیروکسین (Pyroxene) کرتی ہیں۔ اس قسم کی چٹان میں لوہا موجود ہوتا ہے۔ 

لوہا اور آکسیجن کے باہمی کیمیائی تعامل سے چٹان سرخی مائل بھورا ہوجائے گا اور اس کے سالمات کی قوت بندش بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ اس طرح ایک نیا مرکب آئرن آکسائیڈ (ہیما ٹائیٹ) کی تخلیق نو ہوتی ہے جو لوہے کی ایک اہم کچ دھات ہوتی ہے۔

اس کی تخلیق کے دوران اگر درجۂ حرارت 42 ڈگری سی سے کم ہو تو نمی کی کچھ مقدار سالمات کے درمیان مقید ہوجاتی ہے ایسی صورت حال میں لوہے کی اشیاء کو زنگ لگ جاتا ہے جو گویا آکسائیڈ کی ایسی قسم ہوتی ہے جسے ’’آبی آئرن آکسائیڈ‘‘ (لیمونائیٹ) کہتے ہیں جو موسم کے اثرات اور آکسیجن کے ملاپ سے تکسید (Oxidise) ہوجاتا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے ،جس سے آکسیجن دوسرے عناصر یا اشیاء کے ساتھ مل کر تعامل کرکے آکسائیڈ کی تشکیل کرتا ہے۔ 

یہ عمل تکسید کہلاتا ہے۔ مثلاً لوہا یا سوڈیم یا پھر کسی دوسری دھات کے ساتھ آکسائیڈز کی نئی تخلیق۔ یہاں پر یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ قشرارض پر موجود موسمی اثرات اور دھاتوں کے تکسیدی عمل کا آغاز ہوتا ہے وہ میدان یا ایسے علاقے ہوتے ہیں جہاں پر کیمیائی تعامل ہوتا رہتا ہے اور جہاں پر کئی دھاتوں کی تخلیق نو عمل میں آتی ہے۔ 

اس پروسیس میں صرف سطح سے قشر ارض میں سرائیت کرتا ہوا آزاد آکسیجن کا کردار نہیں ہوتا بلکہ زیر زمین سرائیت کرتا ہوا بارش کا پانی، جس میں حل شدہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتا ہے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہوا سے سیر شدہ بارش کے پانی کا اوسطاً ایک لیٹر 25-30کیوبک سینٹی میٹر گیس پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں 30؍ فیصد آکسیجن، 60؍ فیصد نائیٹروجن اور 10؍ فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتا ہے۔ 

گویا بارش کا پانی پوری طرح سے آکسیجن خصوصی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سیر شدہ ہوتا ہے۔ بارش کے پانی کے کردار اس وقت اور بھی دو چند ہوگئی جب ماہرین کوا س بات کا اندازہ ہوگیا کہ ادنی درجے (Low grade) کا کچ دھات ذخیرہ سطح زمین پر نمودار ہوتا ہے۔

موسمی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بارش کا بہتا ہوا پانی (سطحی پانی) دھاتی معدن موسمی اثراتی زون سے حل کرکے زیر زمین سرائیت کرتا جاتا ہے۔ یہ حل شدہ دھاتی اور معدنی ا جزاء کا دوبارہ ازسرنو سطح آب (Water Table) کے نیچے تہہ نشین ہوتا ہے۔

اس عمل سے ایک بہت ہی ادنی درجے کا ابتدائی ذخیرہ ایک قیمتی ثانوی ذخائر سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر پرائمری ذخائر پر مشتمل ہوتا ہے۔ کاپر، سلور، سیسہ، زنک اور دیگر دھاتیں جس میں سلفائیڈ کی شمولیت ہوتی ہے۔ آئرن سلفائیڈ (پائیرائیٹ) تقریباً تمام پرائمری ذخائر میں موجود ہوتا ہے۔ 

اس کی موسم زدگی کے نتیجے میں آئرن سلفیٹ اور سلفیورک ایسڈ کی تخلیق نو عمل میں آتی ہے ،دونوں پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ آئرن سلفیٹ اور سلفیورک ایسڈ ملا پانی دیگر پرائمری سلفائیڈ کچ دھات معاون پر حملہ آور ہو کر اسے حل کرلیتا ہے۔ کاپر (تانبہ) سلور (چاندی) اور زنک (جست) کے کچ دھات معاون اس عمل سے حل ہوجاتے ہیں۔ 

کیمیائی تحلیل (محلول) اور موسم زدگی کے اثرات سے پیدا شدہ کچ دھاتی معاون دھاتی ذخیرہ کے ان حصوں میں مرکوز ہوتا جاتا ہے جو ’’سطح آب‘‘ کا بالائی حصہ ہوتا ہے اور جہاں پر موجود چٹانوں کے مساموں میں ہوا موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ با آسانی تکسید زدہ ہونے والی آکسیجن مرکبات ان اوزون اور کچ دھات میں شامل ہوجاتے ہیں جو کم ویلنٹ دھات ہوتے ہیں۔ مثلا ً:میگنیز اور لوہا وغیرہ۔تکسیدی عمل کے دوران یہ دھات بلند ویلنسی والے آئن کے ذریعہ قائم مقام بن جاتے ہیں لیکن جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے قلمی ساخت کمزور سے کمزور ہوتی جاتی ہے۔

تکسید شدہ قلمیں مکمل طور پر شکست و ریخت ہوجاتی ہے جن کا رجحان نئے معدنی مرکب کی تخلیق کی مائل ہوتا ہے، جس میں سے کچھ پانی میں نا حل پذیر اور کچھ محلول کی شکل میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ وہ محلول جو سلفیٹ دھات کے طور پر حل پذیر حالت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ پتلی دھار ہوتے ہوتے نیچے کی جانب ٹپکنے لگتا ہے اور اس کے دھاتی اجزاء سطح آپ کے نیچے سلفائیڈ کی صورت میں ترسیب (Pricipited) ہو کر ایک ثانوی مالا مال زون (Secondary Enrichment Zone) کی تخلیق نو کرتے ہیں۔

چنانچہ تانبہ (کاپر) کسی بھی سلفائیڈ معاون سے تشکیل پاسکتا ہے جو بجلی کی صنعت میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔’’سطح آب‘‘ کے نیچے چٹانوں یا دھاتی جسم کے تمام مسام پوری طرح سے سیر شدہ ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے تکسیدی عمل اور موسم زدگی کا عمل اختتام پذیر ہوجاتا ہے ،کیوں کہ ہوا موجود نہیں ہوتی۔ یہ کیمیائی ماحول کچ دھاتی معدن کے لئے بالکل مناسب ہوتا ہے۔ 

دھاتی جسم کے غیر تبدیل شدہ حصے جو ثانوی مالا مال زون کے نیچے موجود ہوتا ہے ،اسے پرائمری زون کہا جاتا ہے۔اکثر تانبہ (کاپر) کے ادنی درجے کا ذخائر اسی عمل سے گزرنے کے بعد اعلی قسم کے ذخائر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات لوہا بردار مسام دار جیسا باقیات جو سلفائیڈ ذخیرہ کے اوپر ایک سطحی تہہ کے طور پر تکسید اور موسم زدگی کے تحت تشکیل پاتا ہے جسے ’’گوزن‘‘ (Gossan) کہتے ہیں۔ اس پر موجود آئرن آکسائیڈ اور ہائیڈروآکسائیڈ جو تخلیق نوپاتا ہے باقیات کی شکل میں اپنی پیدائش کی جگہ پر موجود رہ جاتا ہے جو بعض اوقات زیر زمین قیمتی ذخائر کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

باقیاتی ذخائر کے طور پر جو دھاتی معاون عام طور پر آکسائیڈز کی صورت میں پائے جاتے ہیں ،ان میں لوہا، یورینیم، سونا، باکسائیٹ اور میگنیز شامل ہوتے ہیں لیکن باقیات آکسائیڈز ذخائر کی تشکیل نو کے لئے موسم زدگی اور تکسیدی عمل کے دوران چٹانی جسم سے سودمند دھات بردار ہو جو کیمیائی عمل کے دوران زیادہ سے زیادہ مزاحمت کرسکیں۔ 

نمودار چٹانوں کے ڈھلوان کم ہوں، تاکہ کششِ ثقل اور بارش کا بہتا ہوا پانی موسم اثرات اور تکسیدی عمل کے دوران ناحل پذیر محاصل اپنے اصل مقام سے کہیں اور نا چلا جائے۔ یہاں پر یہ ضروری ہے کہ بارش کی موزوں مقدار کی فراوانی ہو، تاکہ موسمی اور تکسیدی عمل سے متاثر حل پذیر محاصل منتقل ہو کر کسی اور جگہ منتقل ہو کر ذخائر بنا سکے جو مختلف آکسائیڈ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب ہائیڈروجن آکسائیڈ (پانی) غیر ذی روح اشیاء یا دھات کے ساتھ کیمیائی تعامل کرتا ہے تو ایک نیا مرکب سامنے آتا ہے۔

ہائیڈرو ریڈریڈ کیلشیم سلفیٹ (جپسم) کی تشکیل اسی نوعیت کی ہوتی ہے اس عمل کو ہائیڈریشن (Hydration) کہتے ہیں۔ جب آکسیجن ہائیڈروجن آکسائیڈ (پانی) کی صورت میں غیر ذی روح مادی اشیاء یا دھاتی ذخیرہ کے ساتھ کیمیائی نظام کرتا ہے تو ایک اور نیا مرکب وجود میں آتا ہے۔ مثلاً :معدن ارتھوکلینر (پوٹاشیم ایلمونیم سلیکیٹ) ہائیڈروجن آکسائیڈز کے ساتھ عمل کرکے کیولین (چائنہ کلے) کی تخلیق نو ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ پانی جب قطروں کی شکل میں زمین پر گرتا ہے تو وہ فضا سے بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے پانی کوئلے کے تیزاب کا ہلکا سا مرکب بن جاتا ہے جسے’’ کاربونک ایسڈ‘‘ کہتے ہیں ۔یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ملا پانی۔ سطح زمین پر درختوں سے مزید کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے تیز کاربونک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے تو پھر یہ ان تمام چٹانی دھاتی ذخیرہ پر حملہ آور ہو کر، جس میں کاربونیٹ موجود ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ تحلیل کرتے ہوئے حل کرلیتا ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کاربونک ایسڈ کاربونیٹ جو نا حل پذیر ہوتا ہے اسے بائی کاربونیٹ میں تبدیل کردیتا ہے جو حل پذیر ہوجاتا ہے۔ جب یہ پانی سمندر، جھیل یا کسی بھی طاس میں جمع ہونے لگتا ہے نامئے(organisms) خصوصی طور پر ڈائی ایٹمز اور ریڈیو لیرین کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو اپنی نشوونما کے دوران استعمال کرتے ہیں ،جس سے آئرن، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ کی از سر نو تخلیق ہوتی ہے۔

کیلشیم کاربونیٹ (چونا پتھر) اور آئرن کاربونیٹ (سیڈیرائیٹ) جو ایک اہم تعمیراتی پتھر ہوتے ہیں۔ لیکن آکسیجن اور غیر ذی روح اشیاء مثلاً دھات یا معدنی اجزاء کے توسط سے جو آکسائیڈ تخلیق نو پاتا ہے اور جسے جدید ٹیکنالوجی میں بڑی فوقیت حاصل ہے اسے یورینیم آکسائیڈ کہا جاتا ہے جو تکسیدی زون کے زیریں حصوں میں موسم زدگی کے عمل سے تشکیل پاتا ہے ۔جسے جوہری توانائی کے حصول کا واحد ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید