مصنوعی ذہانت کا استعمال پوری دنیا میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اس کے نت نئے فیچر زکام کو مزید آسان بنانے اور جلد مکمل کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔علاوہ ازیں مختلف ایپس پر متعارف ہونے والی نئی خصوصیات بھی کار آمد ثابت ہورہی ہیں۔ اے آئی کے نئے منصوبے اور اپیس کے نئی خصوصیات کیا ہیں، اس بارے میں ذیل میں بتایا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ صارفین کے لیے ’’ چیٹ بیک اپ‘‘ کی حفاظت کا نیا طریقہ
انسٹنٹ میسیجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ نے اپنی چیٹ بیک اپس کے لیے ایک نیا سیکیورٹی فیچر پاس کیز متعارف کروا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی ویب سائٹ کے مطابق یہ فیچر صارفین کی چیٹ بیک اپس یعنی بات چیت، تصاویر اور وائس میسجز کو مزید محفوظ بنانے کے لیے پیش کیا گیا ہے، جو کلاؤڈ میں محفوظ کیے جاتے ہیں۔
قبل ازیں صارفین کو چیٹ بیک اپ فعال کرنے کے بعد یا تو ایک پاس ورڈ بنانا پڑتا تھا یا 64 ہندسوں پر مشتمل ایک طویل اینکرپشن کی (Encryption Key) یاد رکھنی پڑتی تھی، جو اکثر مشکل ثابت ہوتی تھی۔
اب واٹس ایپ نے پاس کیز کا نیا فیچر متعارف کر کے یہ عمل آسان بنا دیا ہے، اس کے تحت صارفین اپنے بیک اپ کو محفوظ کرنے کے لیے فنگر پرنٹ، فیس آئی ڈی یا فون کے اسکرین لاک کوڈ کا استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح پاس ورڈ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
واٹس ایپ کے مطابق اس تبدیلی کا مقصد صارفین کے بیک اپ ڈیٹا کو زیادہ محفوظ بنانا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کوئی صارف اپنا فون تبدیل کرے، کھو دے یا نئی ڈیوائس استعمال کرے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ صارفین کا سالوں کا ڈیٹا ان کی چیٹس میں موجود ہوتا ہے، جنہیں محفوظ رکھنا نہایت اہم ہے۔ اگر صارفین اس فیچر کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ واٹس ایپ، ایپ میں سیٹنگز میں جاکر چیٹس کا انتخاب کریں، وہاں چیٹ بیک اپ اور آخر میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ بیک اپ پر جائیں، جہاں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پاس کی کا آپشن دستیاب ہے یا نہیں۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر صارفین نے بیک اپ کو اینکرپٹ کیا ہے اور بعد میں پاس ورڈ، اینکرپشن کی یا پاس کی بھول جائیں تو واٹس ایپ وہ ڈیٹا بحال نہیں کر سکتا، جس کے نتیجے میں ڈیٹا ہمیشہ کے لیے ضائع ہو سکتا ہے۔
یہ فیچر خاص طور پر ان صارفین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا جو فون تبدیل کر رہے ہوں یا جن کا فون گم ہو جائے، نئے فون پر چیٹس کی بحالی اب پہلے سے زیادہ آسان اور محفوظ ہوگی۔ واٹس ایپ کے مطابق پاس کیز فیچر کو مرحلہ وار متعارف کرایا جا رہا ہے، اس لیے یہ ابھی تمام صارفین کے لیے فوری طور پر دستیاب نہیں ہوگا بلکہ وقت کے ساتھ سب کو فراہم کیا جائے گا۔
انسٹاگرام پر ’’واچ ہسٹری‘‘ کا فیچر متعارف
سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام نے شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک جیسا ’’واچ ہسٹری‘‘ فیچر پیش کردیا۔ ٹک ٹاک کے بانی نے انسٹاگرام ویڈیو میں بتایا کہ اب صارفین واچ ہسٹری کے ذریعے پہلے سے دیکھا گیا تمام مواد دوبارہ بھی دیکھ سکیں گے۔
انسٹاگرام پر اب تک ایسا فیچر موجود نہیں تھا، جس کے تحت پہلےسے دیکھا گیا ریل یا دوسرا مواد دوبارہ دیکھا جا سکے، البتہ کسی پیج پر جاکر مواد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
انسٹاگرام پر اسکرولنگ کے وقت دیکھی گئی ویڈیو یا پوسٹ کے اسکرین سے غائب ہوجانے کے بعد دوبارہ دیکھنا ممکن نہیں تھا لیکن اب صارفین واچ ہسٹری کے فیچر کے ذریعے وہ مواد بھی دیکھ سکیں گے۔
مذکورہ فیچر اُن صارفین کے لیے مفید ہے جو ریلز دیکھنے کے شوقین ہیں اور کبھی کبھار کسی ویڈیو کو حادثاتی طور پر اسکرول کرنے یا ایپ ریفریش ہونے کی وجہ سے دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
بانی انسٹاگرام نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ مذکورہ فیچر کو استعمال کرنے کے لیے انسٹاگرام میں سیٹنگز میں جاکر ”Your Activity“ میں جانا ہوگا، جہاں ”Watch History“ پر کلک کرکے دیکھے گئے مواد کی فہرست کو دیکھا جا سکے گا۔
مذکورہ سیکشن میں سب سے اوپر تازہ دیکھی گئی ویڈیوز نظر آئیں گی جب کہ نیچے پرانی ویڈیوز اور دوسرے مواد کی فہرست ہوگی۔ علاوہ ازیں صارفین کسی مخصوص تاریخ کو منتخب کر کے اُس دن کی ویڈیوز بھی دیکھ سکیں گے۔
مصنوعی ذہانت کی تیز رفتاری
گذشتہ کچھ برسوں کے دوران آرٹیفیشل انٹیلی جنس وہ واحد چیز ہے جو نئے خطرات کی فہرست میں شامل ہوئی ہے۔ کئی افراد کے لیے مصنوعی ذہانت کی تیر رفتار ترقی پریشانی کا باعث ہے۔ 2023 کے وسط میں سان فرانسسکو کی ایک فرم نے چیٹ جی پی ٹی ریلیز کیا تھا اور اب دنیا کے کروڑوں افراد اسے استعمال کر رہے ہیں۔
کمپنی اس چیٹ بوٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اپ ڈیٹ بھی کر رہی ہے۔ صحافی کیرن ہؤ کی کتاب کے مطابق چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی سے وابستہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور اس بات سے متفق ہیں کہ سائنسدان ’’آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس‘‘(اے جی آئی) بنانے کے بہت قریب ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب مشین یا مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کے برابر آ جائے گی۔
انھوں نے لکھا ہے کہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ کمپنی کو (اے جی آئی) کی ریلیز سے قبل اہم افراد کے لیے زیر زمین پناگاہیں بنانی چاہیئں۔
یہ اس جانب اشارہ ہے کہ معروف اور بڑے سائنسدان اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے وہ مالکان جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کر رہے ہیں، وہ بظاہر بہت خوفزدہ ہیں کہ نہ جانے ایک دن کیا ہوگا۔
اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کب آئے گی اور کیا اس کے آنے سے واقعی اتنی بڑی تبدیلی آئے گی کہ عام افراد اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے۔ ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اے جی آئی ناگزیر ہے۔
اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین نے 2024 کے اختتام پر کہا تھا کہ یہ کئی افراد کے اندازوں سے بھی پہلے آ جائے گی۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اے جی آئی کے آنے میں پانچ سے دس سال لگیں گے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اے جی آئی 2026 تک ریلیز ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اے آئی دنیا میں تیزی سے بڑھنے والی ٹیکنالوجی ہے اور دنیا کی کئی کمپنیاں اے آئی پر کام کر رہی ہیں۔
انسانی دماغ کی تقلید سے مصنوعی ذہانت کی کارکردگی میں اضافہ
برطانیہ میں یونیورسٹی آف سری (University of Surrey)کے محققین نے مصنوعی ذہانت کی کارکردگی کو انسانی دماغ کے نیورل نیٹ ورکس کی تقلید کے ذریعے بہتر بنانے کا نیا طریقہ تیار کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق انسانی دماغ کے اعصابی رابطوں کی نقل کرنے سے وہ مصنوعی نیورل جال جو تخلیقی ذہانت اور دیگر جدید ماڈلز میں استعمال ہوتے ہیں، زیادہ مؤثر اور طاقتور ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں ایک طریقہ کار متعارف کروایا گیا ہے جسے نقشہ بندی کم مربوط اعصابی جال کہا جاتا ہے، اس میں ہر عصبی خلیہ صرف اپنے قریب یا متعلقہ خلیوں سے جڑا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے انسانی دماغ معلومات کو منظم اور مؤثر طریقے سے ذخیرہ کرتا ہے۔
سینئر لیکچرر ڈاکٹر رومن باور نے کہا کہ ہمارے کام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ذہین نظام زیادہ مؤثر اور توانائی کی بچت کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے، بغیر کارکردگی میں کمی کیے۔ محققین کے مطابق یہ طریقہ غیر ضروری روابط کو ختم کرتا ہے، جس سے مصنوعی ذہانت کی کارکردگی بہتر اور پائیدار ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر باور نے مزید کہا کہ آج کے بڑے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی تربیت کے لیے لاکھوں کلوواٹ گھنٹے بجلی درکار ہوتی ہے، جو بڑھتی ہوئی ضرورت کے لحاظ سے پائیدار نہیں ہے۔
آئی فون کے ڈیجیٹل اسسٹنٹ سری کے لیے نیا اے آئی منصوبہ پیش
ایک جدید ورژن جسے مربوط اعصابی جال کہا جاتا ہے، تربیت کے دوران ایک حیاتیاتی عمل متعارف کرواتا ہے، جس کے ذریعے دماغ کی طرح روابط بتدریج بہتر ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم اس طریقے کو دیگر شعبوں میں بھی استعمال کرنے کا جائزہ لے رہی ہے، جیسے ایسے کمپیوٹرز جو انسانی دماغ کی ساخت اور کارکردگی سے متاثر ہو کر بنائے جاتے ہیں۔ گوگل کا پاکستانی طلبہ کیلئے ایک سالہ مفت’ ’اے آئی پرو پلان‘ ‘کا اعلان۔
تفصیلات کے مطابق گوگل نے پاکستانی طلبہ کے لیے شاندار تعلیمی پیشکش کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت 18 سال یا اُس سے زائد عمر کے طلبہ گوگل اے آئی پرو پلان کی ایک سالہ سبسکرپشن مفت حاصل کر سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کمپنی کی جانب سے یہ بلا معاوضہ پیشکش طلبہ کو جدید آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹولز کے ذریعے اپنی تعلیم، تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جیمینائی اے آئی پرو پلان کے تحت 18 سال یا اس سے زائد عمر کے طلبہ گوگل کی جدید ترین اے آئی خصوصیات تک رسائی حاصل کر سکیں گے، جن میں درج ذیل فیچرز شامل ہیں۔
جیمنائی 2.5 پرو ماڈل
اس کے ذریعے ہمارے جدیدترین ماڈل تک رسائی فراہم کی جائے گی، تاکہ طلبہ ڈیپ ریسرچ جیسے فیچرز استعمال کر سکیں جو اسائنمنٹس ،تحقیق اور تخلیقی منصوبوں میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
جیمنائی گوگل ایپس کی صورت میں اے آئی کی معاونت کو براہِ راست جی میل شیٹس، ڈاکیومنٹس، سلائیڈز میں شامل کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ ای میلز کا خلاصہ تیار کرسکیں، مطالعے کے لیے پریزنٹیشنز بناسکیں اور ڈیٹا کو زیادہ مؤثر طریقے سے تجزیہ کرسکیں۔
نوٹ بک ایل ایم (تحقیق اور تحریر سے متعلق اے آئی کے تحت چلنے والا گوگل کا ذاتی نوعیت کا ٹول)، جو طلبہ کو 5 گنا زیادہ آڈیو اوورویوز، نوٹ بُکس اور دیگر فیچرز فراہم کرتا ہے۔
2ٹی بی کلاؤڈ اسٹوریج
طلبہ کو گوگل ڈرائیو، جی میل اور فوٹوز میں وافر اسٹوریج فراہم کی جائے گی، تاکہ وہ اپنے نوٹس، پراجیکٹس اور دیگر تعلیمی مواد کو عمدہ طریقے سے محفوظ اور اسٹور کر سکیں۔
یہ پیشکش گوگل کے اُس وسیع ترمشن کا حصہ ہے، جس کا مقصد ہر طالب علم کو ایسے اے آئی ٹولز فراہم کرنا ہے جن کی انہیں اپنی تعلیم کو تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔
جیمینائی اے آئی پرو پلان اب پاکستان سمیت ایشیا پیسفک کے متعدد ممالک میں دستیاب ہے۔ یونیورسٹی کے اہل طلبہ مفت ایک سال تک کی رسائی کے لیے اس کے لنک پر جا کر سائن اپ کر سکتے ہیں اور گوگل کے جدید ترین اے آئی ٹولز کو دریافت کر سکتے ہیں۔