خلاء میں تحقیق، نت نئی معلومات حاصل کرنے اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے اب تک کئی ممالک خلاء میں اپنے سیٹلا ئٹ روانہ کرچکے ہیں۔پاکستان بھی ان مقاصد کے لیے سیٹلائٹ بھیج چکا ہے۔
گذشتہ برس پاکستان نے آئی کیوب قمر نامی سیٹلائٹ چین کے خلائی راکٹ چینگ ای سکس کی سے مدد چاند کی جانب روانہ کیا تھا اور اس سے پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا تھا۔
پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیوب قمر نے چاند کے مدار میں داخل ہونے کے بعد تصاویر بھی بھجوائی تھیں۔ اس ضمن میں حال ہی میں پاکستان نے چینی سیٹلائٹ اسٹیشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پہلا ’’ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ‘‘ خلا میں بھیجا ہے۔ اس سیٹلائٹ کو ’’ایچ ایس۔ ون ‘‘(HS-1) کا نام دیا گیا ہے۔
خلائی شعبے میں تحقیق کرنے والی پاکستانی ادارے ’’سپارکو ‘‘کے مطابق اسے چین کے شمال مغربی علاقے جیوچوان لانچ سینٹر سے کام یابی کے ساتھ لانچ کیا گیا ۔ ایچ ایس۔ ون سیٹلائٹ جدید ہائپر اسپیکٹرل ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور اس سے زراعت، موسمیاتی تبدیلیوں اور زمینی ساخت سے متعلق تفصیلی ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں اس سے شہری منصوبہ بندی، قدرتی آفات کے دوران مینجمنٹ میں بھی مدد ملے گی۔ ہائپرل اسپیکٹرل امیجنگ سیٹلائٹ ایچ ایس ون 130 بینڈ پر مشتمل ہے۔ جدید سیٹلائٹ سیکڑوں نوری بینڈز میں درست تصاویر حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جرنل آف کمپیوٹیشنل انٹیلیجنس اینڈ نیوروسائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی عام سیٹلائٹ کیمروں سے مختلف ہے، کیوں کہ عام کیمرے صرف چند رنگوں (جیسے سرخ، سبز، اور نیلا) کو قید کرتے ہیں، جب کہ ہائپر اسپیکٹرل کیمرے سیکڑوں انتہائی باریک رنگ کے بینڈز کو ریکارڈ کرتے ہیں، اس سے وہ نوری فرق معلوم کیے جا سکتے ہیں جو انسانی آنکھ یا عام سیٹلائٹ نہیں دیکھ سکتے۔ جدید ہائپر اسپیکٹرل امیجنگ ٹیکنالوجی سے لیس یہ سیٹلائٹ سیکڑوں باریک اسپیکٹرل بینڈز میں ڈیٹا حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
منیجر سیٹلائٹ ریسرچ، عائشہ ربیعہ احسن کے مطابق اس ہائپرا سپیکٹرل سیٹلائٹ کے ذریعے زمین اور ہوا کے حوالے سے مفصل معلومات اور تصاویر بآسانی حاصل کی جاسکیں گی۔ یہ سیٹلائٹ زمین کے ہر زرے کا مشاہدہ کرے گا۔ اس سے ماحولیاتی نگرانی، جنگلات کی کٹائی اورشہروں کی توسیع کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔
اس میں نصب بینڈ ز سے مختلف رنگوں کے کئی شیڈز کی معلومات بھی ملے گی جن کے ذریعے ہمیں ڈیٹا مرتب کرنے میں آسانی ہو گی۔ فصل کی اُونچائی اور ان میں سے گزرنے والی روشنی کی مدد سے یہ سیٹلائٹ ہمیں فصل کی کیفیت اور صحت سے متعلق معلومات بھی دے گا۔
مینیجر سیٹلائٹ کے مطابق پہلے پوری فصل کے کسی حصے میں بیماری کا پتا چلانے کے لیے محنت درکار ہوتی تھی، لیکن اب اس سیٹلائٹ کی مدد سے یہ ڈیٹا آسانی سے دستیاب ہو گا اور کسان فصل کے اس حصے کی نشاندہی کر کے اس کا سدباب کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی، گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار، سمندر میں آبی حیات کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ اسی طرح آبپاشی کےنظام، سیم تھور والی زمین کی نشاندہی اور پانی کے کٹاؤ کا بھی پتا چل سکے گا۔
زراعت کے شعبے میں ایچ ایس۔ـ ون سیٹلائٹ اعلیٰ ریزولوشن ہائپر اسپیکٹرل ڈیٹا کے حصول اور اس کی درست پیمائش کے ذریعے پریسِڑن فارمنگ کو ممکن بنائے گا۔ اس کے ذریعے ڈیٹا بہت جلد حاصل کیا جا سکے گا اور ڈیٹا کو فوری طور پر کمپیوٹر پر فیڈ کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
اس منصوبے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ سے زرعی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی نگرانی میں انقلاب کی توقع ہے۔ حکومتِ پاکستان کی حمایت سے قومی منصوبہ حقیقت بن سکا ہے۔ یہ جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور گلیشیئر پگھلنے کی مانیٹرنگ میں مدد کرے گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ سے سی پیک منصوبوں میں جغرافیائی خطرات کی نشاندہی میں معاونت ملے گی۔ یہ مشن پاکستان کی خلائی ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی جانب مضبوط قدم ہے۔ ایچ ایس۔ ون ملک کو پائیدار ترقی کے لیے اُبھرتے ہوئے خلائی رہنماؤں میں شامل کرے گا۔سیٹلائٹ کی اپنے مدار میں ٹیسٹنگ کو دو ماہ لگ سکتے ہیں، دو ماہ بعد ایچ ایس۔ ون سیٹلائٹ مکمل فعال ہو جائے گا۔
پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئرز کی موجودگی میں لانچ کی تیاریاں مکمل کی گئیں تھیں۔ ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ سیلابوں، لینڈ سلائیڈز اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگوئی میں مدد گار اور معاون ثابت ہوگا۔
رواں سال خلا میں بھیجا جانے والا یہ پاکستان کا تیسرا سیٹلائٹ ہے، اس سے قبل’ ’ای او۔ ون‘‘ جنوری 2025 اور’ ’کے ایس۔ ون‘‘ جولائی 2025 میں کامیابی سے خلا میں بھیجے جا چکے ہیں۔
دونوں سیٹلائٹس اس وقت مکمل طور پر فعال ہیں۔پاکستان کا خلائی پروگرام جدید ٹیکنالوجی اور ایپلی کیشنز کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔سپارکو کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایچ ایس ون انفرا اسٹرکچر میپنگ اور شہری منصوبہ بندی کے لیے نئی راہیں کھولے گا۔
پاکستان کا یہ مشن قومی خلائی پالیسی اور وژن 2047 کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ پاکستان خلائی شعبے میں تحقیق سے متعلق وژن 2047 پر کام کر رہا ہے، جس کے تحت مرحلہ وار اس شعبے کو فروغ دیا جائے گا۔ آئندہ برس پاکستان کا پہلا خلانورد خلا میں جائے گا۔