• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کائنات کا سب سے بڑا سوال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ سب کچھ کہاں سے آیا؟ بگ بینگ تھیوری نے یہ وضاحت ضرور کی کہ کائنات تقریباً 13.8 ارب سال پہلے ایک انتہائی کثیف اور گرم حالت سے پھیلی لیکن یہ سوال باقی رہا کہ اس عظیم دھماکے سے پہلے کیا تھا؟ 

انسان صدیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ’’کچھ نہیں‘‘ سے ’’سب کچھ‘‘ کیسے نمودار ہوا۔ فلسفےنے تو کئی جوابات دئیے، مگر سائنس کے میدان میں ابھی تک یہ عقدہ کھلا نہیں۔ تاہم، جدید تحقیق اب بتا رہی ہے کہ شاید ہم اس راز کی پرتیں کھولنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

بگ بینگ اور سائنس کی حدود

بگ بینگ کا ماڈل کائنات کی ابتدا کو تو بیان کرتا ہے لیکن اس نقطے پر پہنچتے ہی تمام مساواتیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت (General Relativity) نے خلا اور وقت کے خمیدہ ہونے کی وضاحت کی، یہ بتایا کہ مادّہ اور توانائی خلا کو کیسے موڑ دیتے ہیں اور کائنات کس طرح ارتقا پذیر ہوتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم وقت کو بگ بینگ کے ابتدائی لمحے تک پیچھے لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں، مساواتیں لامحدود نتائج دینے لگتی ہیں۔ کثافت اور درجۂ حرارت اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ریاضی بے بس ہو جاتی ہے۔ اسی مقام پر سائنسدانوں نے ایک نیا راستہ تلاش کیا جسے ’’عددی اضافیت‘‘ (Numerical Relativity) کہتے ہیں۔

عددی اضافیت اور سپر کمپیوٹرز

عددی اضافیت دراصل کمپیوٹر پر آئن اسٹائن کی مساواتوں کو مرحلہ وار حل کرنے کا نام ہے۔ یہی تکنیک بلیک ہولز کے مطالعے میں استعمال ہوئی۔ جب دو بلیک ہول آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان سے کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان لہروں کی پیش گوئی کمپیوٹر نے پہلے ہی کر دی تھی اور جب 2015 میں LIGO (Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory) نے ان لہروں کو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کی پیش گوئی حقیقت سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں تھی۔ 

یہ وہ لمحہ تھا جب انسان نے پہلی بار آئن اسٹائن کی تھیوری کو براہِ راست تجربے سے جانچا۔اب یہی تکنیک سائنسدان کائنات کی ابتدا کو سمجھنے میں استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا؟ کیا کائنات ایک نقطے پر سمٹ گئی تھی یا یہ دراصل کسی اور چکر کا آغاز تھا؟

کاسمک باؤنس تھیوری

کچھ سائنسدان کاکہنا ہے کہ کائنات ایک ’’کاسمک باؤنس‘‘ کے ذریعے پیدا ہوئی۔ یعنی یہ پہلے سکڑی، پھر ایک خاص حد پر جا کر پھٹ پڑی اور یوں ایک نیا کائناتی دور شروع ہوا۔ 

ماہرِ فلکیات روجر پینروز نے "Conformal Cyclic Cosmology" کے نظریے میں یہی کہا ہے کہ کائنات بار بار پیدا اور فنا ہوتی ہے اور بگ بینگ دراصل ایک نئے سائیکل کا آغاز تھا۔

ملٹی ورس

کچھ ماہرین ’’ملٹی ورس‘‘ کے قائل ہیں، جہاں بے شمار کائناتیں ایک ساتھ موجود ہیںاور ہماری کائنات ان میں سے ایک بلبلے کی مانند ہے۔ جب یہ بلبلے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کے نشانات کائناتی پس منظر کی شعاعوں (Cosmic Microwave Background - CMB) میں چھپ سکتے ہیں۔ 2018 میں یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) کے Planck سیٹلائٹ کے ڈیٹا نے اشارہ دیا کہ ممکن ہے CMB میں ایسے دھبے موجود ہوں جو دیگر ’’کائناتی بلبلوں‘‘کی ٹکراؤ کا نشان ہوں۔

کاسمک اسٹرنگز

اسی طرح ’’کاسمک اسٹرنگز‘‘ کا نظریہ ہے، جو کائنات کے اوائل میں پیدا ہونے والی باریک اور لامتناہی توانائی کی لکیریں سمجھی جاتی ہیں۔ اگر یہ واقعی موجود تھیں تو انہوں نے کششِ ثقل کی لہروں کا ایک منفرد نقش چھوڑا ہوگا۔ 2023 میں شائع ہونے والی تحقیق (Journal of Cosmology and Astroparticle Physics) نے بتایا کہ آئندہ نسل کے گریویٹیشنل ویو ڈیٹیکٹرز ان فرضی دھاگوں کے اثرات کو پرکھ سکیں گے۔

کاسمک انفلیشن

انسانی تجسس کی ایک اور بڑی منزل ’’افراطِ کائنات‘‘ ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے، جس کے مطابق بگ بینگ کے فوراً بعد کائنات ایک سیکنڈ کے اربویں حصے میں لاکھوں گنا پھیل گئی۔ اس پھیلاؤ نے کائنات کو ہموار اور یکساں بنا دیا، اور اسی وجہ سے آج ہمیں آسمان ہر سمت تقریباً ایک جیسا نظر آتا ہے۔ سائنسدان Alan Guth نے 1980 میں یہ نظریہ پیش کیا۔ 

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ افراط واقعی ہوا تھا؟ اکثر نظریاتی مطالعے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ کائنات پہلے سے ہموار تھی، پھر افراط نے اسے مزید منظم کر دیا۔ لیکن کمپیوٹر سمولیشن کے ذریعے اب یہ جانچنا ممکن ہے کہ اگر کائنات شروع میں بے قاعدہ اور پرآشوب ہو، تب بھی کیا افراط کا عمل اسے ہموار کر سکتا ہے؟ 

اور اگر کر سکتا ہے تو کب اور کیسے؟2014 میں BICEP2 تجربے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے "Primordial Gravitational Waves" کے آثار دیکھے ہیں جو انفلیشن کا ثبوت ہیں، مگر بعد میں واضح ہوا کہ یہ دراصل کہکشانی گرد (Cosmic Dust) کا اثر تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ابھی تک یہ نظریہ قطعی طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔

لیکن یہاں ایک فلسفیانہ سوال بھی جنم لیتا ہے۔ اگر بگ بینگ سے پہلے کچھ تھا، تو وہ کیا تھا؟ اور اگر کچھ بھی نہیں تھا، تو ’’کچھ نہیں‘‘ سے ’’سب کچھ‘‘ کیسے پیدا ہو گیا؟ سائنسدان کہہ سکتے ہیں کہ ہم مساواتیں حل کر رہے ہیں، کمپیوٹر پر ماڈل بنا رہے ہیں، مگر ’’کچھ نہیں‘‘ کی تعریف خود سائنس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، کیوںکہ کچھ نہیں کا مطلب خلا بھی نہیں، وقت بھی نہیں، قوانین بھی نہیں، پھر یہ سب کچھ کہاں سے آیا؟ 

یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس اور فلسفہ ایک دوسرے سے جاملتے ہیں۔کچھ ماہرین جیسے Lawrence Krauss نےاپنی کتاب A Universe from Nothing میں لکھا ہے کہ ’’کوانٹم میکینکس‘‘ میں کچھ نہیں بھی دراصل خلا کی خالی حالت نہیں بلکہ توانائی کے اتار چڑھاؤ سے بھرپور ایک ’’کوانٹم ویکیوم‘‘ ہے۔ اس ویکیوم سے ذرات لمحہ بہ لمحہ وجود میں آتے اور غائب ہوتے ہیں اور شاید کائنات کی تخلیق بھی ایسے ہی کسی اتار چڑھاؤ کا نتیجہ تھی۔

کائنات کی تخلیق پر ہر دور میں نظریات بدلتے رہے ہیں۔ کبھی اسے ازلی سمجھا گیا، کبھی کسی مافوق الفطرت قوت کا نتیجہ مانا گیا۔ آج سائنس کہتی ہے کہ ہم تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جانچ سکتے ہیں کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔ بگ بینگ ایک شاندار ماڈل ہے لیکن یہ مکمل جواب نہیں۔ عددی اضافیت اور سپر کمپیوٹرز کے ذریعے ہمیں وہ موقع مل رہا ہے کہ ہم ابتدائی لمحات کو دیکھ سکیں اور شاید یہ جان سکیں کہ بگ بینگ کے پیچھے کون سا عمل کارفرما تھا۔

اگر آنے والے برسوں میں یہ تحقیق کامیاب ہوئی تو انسانیت پہلی بار اس سوال کا سائنسی جواب دینے کے قریب ہوگی جو ہزاروں سال سے انسانی ذہن میں موجود ہے۔اس ساری تلاش کا حاصل یہی ہے کہ انسان اپنی عقل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ان سوالات تک پہنچ رہا ہے۔ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ جیسے جیسے کمپیوٹر طاقتور ہوتے جائیں گے اور ریاضی مزید نفیس ہوگی، ویسے ویسے ہم ’’کچھ نہیں‘‘ سے ’’سب کچھ‘‘ کے اس عظیم راز کے قریب پہنچتے جائیں گے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید