ہماری موجودہ زمین جس پر ہم چلتے ہیں، سانس لیتے ہیں، زندگیاں گزارتے ہیں وہ صرف اس لمحے کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ ایک لمبے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو تقریباً 4.5 ارب سال پر محیط ہے۔ ابتدائی سورج کے گرد بکھرے ہوئے گیس اور غبار کے بادل سے ٹھوس اجسام بننے شروع ہوئے، وہ اجسام آپس میں ٹکرانے لگے، مل جل کر بڑے اجسام بنے، اور بالآخر وہ اجسام جو سیارے بنے۔ اس عمل کے دوران، زمین کی ابتدائی شکل یعنی پروٹو ارتھ وجود میں آئی، لیکن وہ حالت طویل عرصے تک باقی نہ رہی۔
کم از کم روایتی نظریے کے مطابق، ایک عظیم تصادم (جیسا کہ Giant-Impact Hypothesis) نے اس ابتدائی حالت کو تقریباً مکمل طور پر بدل دیااور ہماری زمین کی شئے شدہ شکل کو معرضِ وجود میں لایا گیا۔ لیکن حالیہ تحقیق نے دکھایا ہے کہ شاید اس ابتدائی زمین کے بہت کم، مگر اہم اجزاء اب بھی ہماری زمین میں بالخصوص اس کے اندرونی حصّوں میں موجود ہیں۔
یعنی وہ ’’گم شدہ دنیا‘‘، وہ ابتدائی اجزاء جن کی ہم نے توقع کی تھی کہ تباہ ہو چکے ہوں گے، شاید ابھی بھی ہماری زمین کے گہرائی میں محفوظ ہیں۔ یہ دریافت زمین کی ابتدا، ارتقاء اور سیاروی تشکیل کے مطالعے کے لیے اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
تصادمات، میٹیورائٹس اور آئسوٹوپس کے سراغ
روایتی ماڈلز بتاتے ہیں کہ زمین ابتدائی 4 سے 5 ارب سال پہلے بننے لگی۔ اس دوران ٹھوس مواد نے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے اجسام بنائے اور زمین کی ابتدا ہوئی، پھر اس نے ایک مرحلے میں ایسا تصادم جھیلا جسے جائنٹ امپیکٹ کہا جاتا ہے، جس میں مریخ کے سائز کے کسی اجسام نے پروٹو ارتھ سے ٹکرایا اور اس کے نتیجے میں زمین کی اندرونی ساخت اور کیمیائی ترکیب بڑی حد تک تبدیل ہوئی۔ اسی عمل نے چاند کی تخلیق کا بھی باعث بننے کا نظریہ دیا ہے۔
اس ماڈل کے مطابق، اس عظیم تصادم نے ابتدائی اجزاء کو تقریباً مٹا کرمولٹّن کی حالت میں ملا دیا اور اس نے ایسے مواد کی باقیات ختم کر دیں جو پہلے وجود میں تھیں۔ اس لیے سائنسدان یہ فرض کرتے رہے کہ پروٹو ارتھ کے وہ اجزاء اب دستیاب نہیں یا کم از کم سطح پر نہیں مل رہے۔
لیکن جدید تجزیات نے ظاہر کیا ہے کہ زمین کی “بنیادی مادّہ” (bulk silicate Earth) کی ترکیب یعنی اس کا مجموعی کیمیائی و آئسوٹوپک ساخت ایسے میٹیورائٹس (Meteorites) کے ملاپ سے پوری طرح وضاحت نہیں ہوتی جو ہمارے پاس موجود ہیں۔
اس سوال نے محققین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید پروٹو ارتھ نے مخصوص آئسوٹوپک دستخط رکھے تھے جو بعد کی ساخت سے مختلف رہے تھے اور اگر وہ دستخط آج بھی کہیں محفوظ ہوں تو ہمیں زمین کی ابتدائی حالت کا براہِ راست ثبوت مل سکتا ہے۔
ایم آئی ٹی ( MIT ) کی تحقیق اور پوٹاشیم آئسوٹوپس
نیکول نائی (Nicole Nie) کی قیادت میں، MIT کی ٹیم نے زمین کی مختلف قدیم اور گہرائی سے لائی گئی چٹانوں میں “پوٹاشیم آئسوٹوپک دستخط” (K isotopes) تلاش کیے۔ ان میں خاص طور پر آئسوٹوپ (Potassium 40 k) کا تناسب مدِ نظر تھا، کیوںکہ یہ آئسوٹوپ نسبتاً کم مقدار میں پایا جاتا ہے اور اس کی تبدیلیاں کیمیائی نشانات کے طور پر اہم ہیں۔
ٹیم نے قدیم آتش فشانی راک نمونے، مثلاً گرین لینڈ، کینیڈا میں موجود بسیار قدیم چٹانیںاور ہوائی کے آتش فشانی مادّے (جو کہ ارض کے گہرے والے مینٹل سے اُبلی ہوئی ہیں) کا تجزیہ کیا۔ وہ کھرچیں (samples) پوٹاشیم سے علیحدہ کی گئیں اور بعد میں ماس اسپیکٹرو میٹری سے تین آئسوٹوپس ³K، ⁴⁰K، ¹K کی نسبت ناپی گئیں۔ اُن نمونوں میں پایا گیا کہK کی مقدار معمول سے بھی کم رہی۔
یعنی ایک اہم کمی تھی۔ مثال کے طور پر یہ کمی تقریباً 65 حصّات فی لاکھ (ppm) کی سطح پر تھی، جو کہ زمین کے دیگر نمونوں کے مقابلے میں نمایاں تھی۔ اس کمی کا مطلب یہ تھا کہ یہ مادّے اُس ابتدائی حالت سے تعلق رکھتے ہیں جو جائنٹ امپیکٹ کے بعد کی ملی جلی حالت سے مختلف تھی یعنی وہ ’’پروٹو ارتھ‘‘ کے اجزاء کے ماننے جانے والے مادّے ہو سکتے ہیں جنہیں بعد کی تقلب سے مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا گیا۔
ماڈلنگ اور تہوں میں محفوظ مادّہ
دوسری ٹیم نے میٹیورائٹس کی ترکیب کا مطالعہ کیا اور کمپیوٹر ماڈلز چلائے جن میں دیکھا گیا کہ کس طرح مختلف تصادمات، مکسنگ اور زمینی عمل نے اس آئسوٹوپک دستخط کو تبدیل کرنا ممکن کیا ۔ اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ جدید زمین کی آئسوٹوپک ترکیب اُس ابتدائی حالت کی تبدیلی کا نتیجہ ہے اور وہ نمونے جن میں K کی کمی ہے وہ وہ مادّے ہیں جنہوں نے اس تبدیلی سے کم متاثر ہونے والے زونز میں محفوظ رہیں۔
لہٰذا! یہ دریافت بتاتی ہے کہ ہماری زمین کی اندرونی تہوں میں ممکن ہے کہ وہ پرانے اجزاء محفوظ ہوں جن کا تعلق اس ابتدائی گم شدہ دنیاسے ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ سائنسدان گزشتہ دہائیوں تک تلاش کر رہے تھے۔ اس تحقیق کی انجام دہی میں چند اہم پہلو قابلِ توجہ ہیں۔
آئسوٹوپک ترکیب یعنی آئسوٹوپس کا تناسب، سیاروی مادّے کی اصل، تاریخ اور ارتقائی عمل کی علامت ہو سکتی ہے۔ تحقیقی ٹیم نے خاص طور پر ’’ماس انڈیپنڈنٹ‘‘ (mass-independent) پوٹاشیم آئسوٹوپک تبدیلیاں ناپی ہیں جو جیو کیمیائی عمل یا میگمائیت (magmatic) عمل سے پیدا نہیں ہو سکتیں۔ مثال کے طور پر، اگر صرف میگمائیت یا سطحی عمل ہوتا، تو ایک مخصوص تبدیلی کا امکان ہوتا، مگر اس طرح کی کمی جو انہوں نے ناپی ہے، وہ ان عوامل سے واضح نہیں کی جا سکتی۔
ٹیم نے موجود میٹیورائٹس کی تراکیب استعمال کیں اور ماڈل بنایا کہ اگر ایک پروٹو ارتھ تھا، جس نے بعد میں ایک جائنٹ امپیکٹ سہہ لی تو اس کے اندر مقیم مادّے کس طرح زمانے کے ساتھ تبدیل ہو سکتے تھے۔ اس سے یہ حساب لگایا گیا کہ اگر ابتدائی مادّوں میں K کی کمی تھی، تو جائنٹ امپیکٹ کے بعدکے چھوٹے تصادمات اور زمینی مکسنگ کے باعث یہ کمی آہستہ آہستہ مٹ سکتی تھی۔
گہرے مینٹل کی تہوں میں قدیم خزانے
یوں modern زمین کی مشترکہ آئسوٹوپک ترکیب آج کی سطح پر ملتی ہے۔ اس ماڈلنگ نے یہ نتیجہ دیا کہ وہ نمونے جن میں کمی دیکھی گئی ہے وہ ایسا داخلی مادّہ ہوسکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر مکسنگ سے متاثر نہیں ہو۔ا یعنی جو بچ گیاہو۔ ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ زمینی مینٹل میں مکمل مکسنگ نہیں ہوئی ہے۔
یعنی یہ ضروری نہیں کہ زمین کی تمام پرتیں ایک جیسی آئسوٹوپک ترکیب کی حامل ہوں۔ ان نتائج سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ گہرے مینٹل میں ایسے “راسخ مادّے” (reservoirs) موجود ہیں جنہوں نے اربوں سال کی مکسنگ کے باوجود اپنی آئسوٹوپک شناخت کو خاص حد تک محفوظ رکھا ہے۔
یہ تحقیق ہمیں دکھاتی ہے کہ ہماری زمین صرف ایک متحدہ مکسڈ جسم نہیں تھی بلکہ ممکن ہے کہ اس کی اندرونی پرتوں میں ایسا مادّہ موجود ہو جو اس کی پروٹوحالت جیسا ہے۔ یہ دریافت سیاروی تشکیلی عمل، میٹیورائٹس کی حقیقت، زمین کے اندرونی مکسنگ کے عمل اور نظامِ شمسی کے ابتدائی مادّے کے بارے میں نئے سوالات اٹھاتی ہے۔
محققین نے ثابت کیا ہے کہ زمین کے اندر ایسے مادّے موجود ہیں جن کا آئسوٹوپک دستخط باقی زمین سے مختلف ہے، وہ K کی کمی کی صورت میں پہچانے گئے اور یہ مادّے جائنٹ امپیکٹ اور اربوں سال کے زمینی عمل کے باوجود محفوظ رہے۔
یہ تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری زمین صرف اس لمحے کی پیداوار نہیں بلکہ ماضی کے بہت دور دراز مراحل کی نازک تصویر بھی ہے ایک تصویر جس کے اجزاء آج بھی زمین کی تہہ کے نیچے محفوظ ہیں۔