• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبرہے کہ ملتان میں سیلابی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ کشتیوں کے مالکان نے ایک چکر کا ریٹ چالیس ہزار سے ایک لاکھ تک کر دیا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کی پرانی عادت ہے۔ کرونا میں ماسک اور سینی ٹائزرمہنگے ہوگئے تھے، جنگ کے دوران اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں اور اب سیلاب۔ پہلے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا تھا،اب ڈوبتےکوایک لاکھ کاٹیکا لگایا جا رہا ہے۔ خوف اور موت کے کاروبار میں بڑی چھوٹ ہے۔ فائلر ہوناضروری نہیں، منہ مانگے دام ملتے ہیں، کوئی فکس ریٹ نہیں، فوری کیش ملتاہے اورگاہکوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔کسی نے کہا تھا کہ آج اگر پتا چل جائے کہ دو دن بعد قیامت آنی ہے تو مصلے ٹوپیاں مہنگی ہوجائیں گی۔پانی نے املاک، مویشی، امیدیں اور خواب کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کے احساس اور جذبات کو بھی غرق کر دیا ہے۔ہم نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک تک تو ایک ہوسکتے ہیں لیکن پانی میں ڈوبنے والوں کی مدد کے ریٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے۔لاش نکالنا زیادہ مہنگا ہوگیا ہے کہ لاش کا وزن زیادہ ہوجاتاہے۔سیلابی علاقوں کے کناروں پر ترازو بھی لگانے چاہئیں تاکہ لاش کے وزن کے حساب سے پیسے چارج کیے جاسکیں۔سو روپے کلو بھی مقرر ہوجائیں تو برے نہیں۔ بچوں کی لاشیں زیادہ مہنگی ثابت ہوں گی کہ یہ لاشیں اکیلی نہیں ہوتیں، ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی بڑی لاش بھی ہوتی ہے جس نے چھوٹی لاش کو اپنے سینے سے بھینچ رکھا ہوتاہے۔ تکلیف سے رزق کشید کرنے کا ہنر بھی کسی کسی بدنصیب کے حصے میں آتاہے۔پانی اترے گا تو پتا چلے گا کس کا ہاتھ ہوا میں بلند رہ گیا اور کون درخت سے چمٹا ہوا سانسیں ہار گیا۔سیلاب میں وہ نہیں مرتے جو ڈوب جاتے ہیں۔ مرتے تو وہ ہیں جو بچ جاتے ہیں۔ایسی جو کشتیاں ڈوبتے ہوؤں کو بچانے سے پہلے بولیاں لگا رہی ہوں اُنہیں کشتیاں نہیں کہتے۔

٭٭٭٭

عالمی ادارہ صحت WHO نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پوری دنیا میں خود کشی کرنے والوں کی تعدادسات لاکھ سالانہ سے تجاوز کرگئی ہے۔اگر تو خودکشی سے مراد زندگی کا خاتمہ ہے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ ہرسال کروڑوں اربوں لوگ شادیاں کرتے ہیں۔کچھ لوگ شوقیہ بھی خود کشی کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ سڑک پر ایک بھکار ی نے نہایت دکھی لہجے میں مجھ سے سوروپے مانگے اور رقت آمیز لہجے میں بتایا کہ وہ اتنا مجبور ہے کہ دو تین دفعہ خودکشی کی کوشش کر چکا ہے۔ میں نے پوچھا کبھی کامیابی ہوئی؟ اُس نے آہ بھری اور اثبات میں سرہلا کر بولا’جی صاحب دو تین دفعہ‘۔ اسکے بعد میں نے خیرات کی بجائے انعام کے طور پر اُس کی خدمت میں دو سو روپے پیش کردیے۔مختلف عمرکے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر خود کشی کرتے ہیں مثلاً تیس سال سے زیادہ عمر والے لوگوں میں خودکشی کی وجہ نوکری کا چلے جانا، بجلی کا بل زیادہ آجانا، مکان کا کرایہ یا بیوی سے لڑائی ہوتی ہے۔ جبکہ نوجوان امتحان یا محبت میں ناکامی پر بھی اپنا خاتمہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ویسے موجودہ حالات میں جو زندہ ہے وہی سب سے بڑا مردہ ہے۔ایک صاحب نے خود کشی کرلی اور وفات پاگئے۔ ایک دن قبرستان میں ان کی روح سڑک کنارے بیٹھی تھی کہ دیکھا ایک ڈھانچہ بھی قریب کھڑا ہے۔ اپنائیت کا جذبہ جاگا اور ڈھانچے سے سلام دعا ہوئی۔ ڈھانچے نے پوچھا آپ کی وفات کیسے ہوئی؟ یہ اداس ہوگئے اور کہنے لگے میں نے مہنگائی سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔ پھر ڈھانچے سے پوچھا’تمہاری وفات کیسے ہوئی؟‘۔ ڈھانچے کی آنکھوں میں آنسو آگئے’بھائی میں ابھی زندہ ہوں‘۔

٭٭٭٭

سردیاں شروع ہونے کو ہیں۔ اس دفعہ چونکہ بارشیں معمول سے کہیں زیادہ ہوئی ہیں لہٰذا لگتاہے کہ سردی بھی زیادہ ہوگی۔سردی کی آمد کے کچھ سنگ میل نظرآنا شروع ہوگئے ہیں۔ سبزی کی دکانوں پر مولیاں آگئی ہیں، ایئرکولر کی دکانوں پر گیزر سج گئے ہیں،رات کویہ آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں ’اے سی لگا دو، اے سی بندکردو‘۔ ٹینکی کے پانی سے نہاتے ہوئے منہ بھینچ کر پہلے جھرجھری لینا پڑتی ہے۔شاور کے نیچے پانچ سیکنڈ کھڑے ہوں تو بھاگ کر سائیڈ پر ہونا پڑتا ہے اور سانس بحال کرنا پڑتاہے۔سوتے وقت پنکھا بھی چلانا پڑتاہے، ہلکی چادر بھی لینی پڑتی ہے اور پاؤں بھی چادر سے باہر پھیلانا پڑتے ہیں۔پھولے ہوئے دروازے دھیرے دھیرے اوقات میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔کیڑے مکوڑے اپنا آخری دیدار کروا چکے ہیں لیکن حیرت ہے کہ آم ابھی تک مارکیٹ میں موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جدائی کے خوف سے اس کی مٹھاس خشک ہوچکی ہے۔ڈرائی فروٹ کی دکانوں پر جھاڑ پونچھ جاری ہے۔ اورگھروں میں مشورے کیے جارہے ہیں کہ کب گرمیوں کے کپڑے پیٹی میں دفن کرنے ہیں اور کس دن گرم کپڑوں کو دھوپ لگوانی ہے۔سردیاں جب بھی آتی ہیں ایسالگتاہے بڑی دیر بعد آئی ہیں۔ویسے تو چائے گرمیوں میں بھی پی جاتی ہے لیکن سردیوں کی چائے کالطف ہی کچھ اور ہے۔چائے سے ہمارے لوگوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکی نے شادی کے خواہشمند لڑکے کو چیک کرنے کیلئے کہا کہ’کان کھول کر سن لو میرے ماں باپ کوئی جہیز نہیں دیں گے‘۔لڑکے نے بےپروائی سے کہا ’کوئی بات نہیں‘۔ لڑکی بولی’اور بارات میں بھی صرف پندرہ لوگ لانے ہوں گے‘۔لڑکے نے فوراً کہا’کوئی بات نہیں‘۔ لڑکی کچھ سوچ کر بولی’مجھے مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں‘۔لڑکا نے جھٹ کہا’کوئی بات نہیں‘۔لڑکی بولی’مجھے روٹی بھی بنانی نہیں آتی‘۔ لڑکے نے بے فکری سے کہا’کوئی بات نہیں‘۔ لڑکی نے بے چینی سے اپنی انگلیاں مروڑیں ’میں انڈہ بھی نہیں تل سکتی‘۔لڑکے نے قہقہہ لگایا’کوئی بات نہیں‘۔لڑکی تلملا کر رہ گئی۔گہری سانس لی اور آخری جملہ بولا’میں کافی پیتی ہوں چائے مجھے پسند نہیں‘۔ یہ سنتے ہی لڑکے کو جیسے کرنٹ سا لگا، زور سے اچھلا، آنکھوں میں شعلے بھر گئے اورپوری قوت سے چلا یا’جس کو پسند نہیں چائے.....وہ بھاڑ میں جائے‘۔

تازہ ترین