آج میں آپ کو ایک جنگل کی کہانی سنائوں گا۔ کہانی سننے کیلئے آپ کو چھوٹا بچہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بچے ہوں یا بوڑھے ہوں، آپ مختلف عنوانوں سے تحریری، زبانی، کلامی کہانیاں سنتے ہیں۔ سیلاب آیا ہوا ہے۔ تمام اخبار سیلاب کی کہانیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ کہانیاں جھوٹی نہیں ہوتیں اور سب افسانے سچے نہیں ہوتے۔ محقق آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کس تحریر کو کہانی اور کس نوعیت کی تحریر کو افسانہ کہا جائے۔ تمام افسانے جھوٹے اور تمام کہانیاں نہیںسچی ہوتیں۔ یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ کہانیاں صرف بچوں کیلئے لکھی جاتی ہیں اور بچوں کو سنائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے گزارش کردی تھی کہ آپ خواہ مخواہ گھبرائیں نہیں۔ جنگل کی کہانی سننے کیلئے آپ کو بچہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ آپ سچ مچ کے بچے ہیں اور فیڈر پر گزارا کرتے ہیں یا پھر نوجوان ہیں، جوان ہیں، ادھیڑ عمر کے ہیں یا پھر بوڑھے ہیں، کچھ فرق نہیں پڑتا، آپ گھبرایے مت، میں آپ کی جواں مردی پر حرف آنے نہیں دوں گا۔ آپ دل تھام کر بیٹھیں اور جنگل کی کہانی سنیں۔ آپ مت بھولیں کہ آپ بھی کانکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں۔میں کانکریٹ کے جنگل میں رہتا ہوں۔ آپ جنگل کی کہانی سنیں۔
ایک تھا جنگل۔ آپ حیران پریشان نہ ہوں۔ کہانیاں اسی طرح شروع ہوتی ہیں ۔تو ایک تھا جنگل، اس جنگل میں طرح طرح کے پرند اور چرند رہتے تھے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اس جنگل میں ہر نوعیت کے پرندے اور جانور رہتے تھے۔ میری یہ بات آپ کو مضحکہ خیز لگی ہوگی۔ جنگل میں جانور اور پرندے رہتے ہیں۔ جن، بھوت اور آدمی نہیں رہتے۔ آدمی شہروں کے کانکریٹ جنگل میں رہتے ہیں۔ آدمیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہم صحبت چڑیلیں، جن بھوت ان کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ آپ نے اکثرHauntedگھروں کا ذکر سنا ہوگا۔ گھر میں ناچاقی کی وجہ سے چڑیلیں، جن اور بھوت گھر پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس لیے سیانے گھر میں چپقلش سے اجتناب کرتے ہیں۔
جنگل کے جانوروں میں سب سے زیادہ تعداد بندروں اور لنگوروں کی تھی۔ ایک دلچسپ بات آپ کو بتادوں، جنگل میں، جنگل کانظام چلانے کیلئے ٹھوس قسم کے جمہوری نظام کا راج تھا۔ روایت چلی آرہی تھی کہ جمہوری نظام میں بھانت بھانت کے جانور ایک جیسے رنگ ڈھنگ اور وضع قطع کے باوجود صرف اپنے جیسے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے تھے۔ وہ تمام جانوروں میں سب سے سیانوں، منصفوں، ایمانداروں اور سچائی کی خاطر سر دینے والے جانوروں کو ووٹ دے کر چنتے تھے اور ان کو جنگل کی اسمبلی تک پہنچا دیتے تھے۔ سیانوں، منصفوں، ایمانداروں اور سچائی کی خاطر سر دینے والے اسمبلی کے ممبر بنتے تھے۔ وہ رنگ ڈھنگ میں ایک جیسے نہیں ہوتے تھے مگر ایمانداری، دیانت اور سچائی میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے تھے۔ کیا مجال کہ جنگل کے نظام میں کبھی نااتفاقی اور گڑبڑ دکھائی دیتی ہو، اسمبلی کے ممبران اپنے لیے اسپیشل گھونسلے اور رہنے کیلئے اعلیٰ مسکن بناتے ہوں۔ کمال کےا صول تھے جنگل کی جمہوریت میں، جب تک شیر کو بھوک نہیں لگتی تھی، تب تک شیر شکار نہیں کرتا تھا، پرندے ایک دوسرے کے انڈے نہیں چراتے تھے۔ ایک ہی تالاب سے شیر اور ہرن مل جل کر پانی پیتے تھے۔ پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا۔ جانوروں نے پرانے میل ملاپ کو خیرباد کہہ دیا۔ جانوروں نے اپنے اپنے رنگ، روپ اور چال ڈھال کے مطابق اپنی اپنی جماعت، منڈلی اور مجلس بنا ڈالی۔ اس کے بعد جنگل میں پہلے جیسا کچھ باقی نہیں رہا۔
جنگل تو وہی رہا لیکن جنگل کی روایتیں بدل گئیں، انتخابات کے دوران ووٹ دینے والے جانوروں نے یہ دیکھنا اور سوچنا چھوڑ دیا کہ امیدواروں میں کون ایماندار اور کون بے ایمان تھا۔ کون حق کی بات کہہ سکتا اور کون جھوٹ کا مربی تھا۔ کون سچ کی خاطر جان دے سکتا تھا اور کون سچ کا منحرف تھا۔ بننے والی جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت بندروں اور لنگوروں کی تھی۔ ببر شیر کو لیڈر آف دی ہائوس بنانے میں جانوروں کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ ایک عرصے تک جنگل کی اسمبلی میں بندر یا کوئی لنگور لیڈر آف دی ہائوس بنا بیٹھا رہتا تھا۔ پھرتی اور تیزی چونکہ بندروں اور لنگوروں کی فطرت میں ہوتی ہے، اس لیے لیڈر آف دی ہائوس اکثر درختوں کے درمیان اچھلتا کودتا رہتا تھا، اس لیے اکثر مصروف دکھائی دیتا تھا۔ جانور بھول بھال گئے کہ کبھی ببر شیر بھی لیڈر آف دی ہائوس ہوا کرتا تھا۔
جنگل کی جمہوریت میں دوسری بڑی جماعت تھی گیدڑوں کی، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ اکثریتی جماعت یعنی بندروں اور لنگوروں کی جماعت گیدڑوں کی جماعت سے سمجھوتا کرلیتی تھی اور پھر کچھ عرصہ کیلئے ایک گیدڑ جنگل کی اسمبلی میں لیڈر آف دی ہائوس بن جاتا تھا۔
کسی نے ببر شیر سے پوچھا۔ ’’جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، کیا ٹھیک ہے؟‘‘
ببر شیر نے کہا۔ ’’جمہوریت میں ایسے ہی ہوتا ہے، شیر گھاس کھانے چلے جاتے ہیں۔‘‘