• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’اقوام غیر متحدہ‘نے مسئلہ فلسطین کے دور یاستی حل کی قراردادبھاری اکثریت سے منظور کرلی ہے۔ 142ووٹ حق میں اور 10مخالفت میں پڑے جن میں اسرائیل اور امریکہ بھی شامل ہیں۔گویا قرارداد نامنظورہوگئی۔ایسی قرار داد صرف’داد‘ کی مستحق ہوتی ہے۔بم کا خول اقوام متحدہ کے پاس ہے اور بارود مخالفت کرنیوالوں کے پاس۔کرلوجو کرنا ہے۔ لکیر کی ایک طرف کھڑے ہوکر جو مرضی نعرے لگاتے رہیں، احتجاج کرتے رہیں، قراردادیں منظورکرتے رہیں۔کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اُن کا بس چلے تو اقوام متحدہ کے دفتر پر لکھوا دیں ’لگے رہومنا بھائی‘۔ ظلم کے خلاف قراردادپاس کرنا بھی ظلم سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کا اکٹھ ہے، چھوٹے ممالک تو شامل باجا ہیں۔بارات میں دولہا اور اس کے والدین کی اہمیت ہوتی ہے باقی سب باراتی ہوتے ہیں اور اپنے تئیں خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہم دلہن کو بیاہنے جارہے ہیں۔

٭٭٭٭

قطر پراسرائیلی حملے کے بعد ٹرمپ نے قطری وزیراعظم کو یقین دلایا ہے کہ ’ایسا دوبارہ نہیں ہوگا‘۔یہ بالکل ایسا ہے جیسے کسی کو جان سے مار کر اسکے لواحقین سے کہا جائے’ایسا دوبارہ نہیں ہوگا‘۔میرے خیال میں پورا بیان یوں ہوناچاہیے تھا’ایسا دوبارہ نہیں ہوگا اور اگر ہوا تو آپ کے پیسے واپس‘۔ٹرمپ نے تو یقین دلا دیا ہے میرا خیال ہے قطری وزیر اعظم کو بھی یقین آگیا ہے۔ہمارے اسکول میں میٹرک کے ایک ٹیچر کسی کو زیادہ زور سے ڈنڈا ماردیتے تھے تو گھور کر پوچھتے تھے’کیا میں نے ڈنڈا زور سے مارا ہے؟‘ اور لڑکا سہم کر نفی میں سرہلادیتا تھا۔ایران اچھا رہ گیا، اپنے سے سو گنا بڑے بدمعاش کی ٹنڈ پر چار تھپڑ تو مار دیے۔قطر امریکہ کے بھروسے بیٹھا تھا اسی لیے اسرائیل کو یقین تھا کہ قطر کبھی ’قطرناک‘ نہیں ہوسکتا۔امن سے جینے کا مطلب یہ نہیں کہ دفاعی صلاحیت بھی ختم کردی جائے۔

٭٭٭٭

ایک صحافی آموں کے ایک باغ میں پہنچا جہاں باغ کا مالک ہاتھ میں بندوق لیے بیٹھا تھا۔صحافی نے پوچھا کہ اِس گاؤں کے لوگ کیسے ہیں؟ باغ کے مالک نے کہا’بہت ایماندار‘۔ صحافی نے حیرت سے پوچھا ’توپھر آپ نے یہ بندوق کیوں رکھی ہوئی ہے؟‘۔ باغ کے مالک نے اطمینان سے جواب دیا ’اُنہیں ایماندار رکھنے کیلئے‘۔

٭٭٭٭

آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کے مطابق پی آئے میں 21 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں پی آئی اے کی پروازوں پر پانچ سال سے پابندی تھی اسکے باوجود 35ملازمین تعینات رہے۔کہتے ہیں ویران جگہوں پر جنات بسیرا کرلیتے ہیں۔میراخیال ہے 35 ملازمین اس لیے بھی برقرار رکھے گئے ہوں گے کہ دفاتر میں آنا جانا لگا رہے۔ جنات بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے اچھا تھا ہمیں رکھ لیتے کم ازکم ہم تنخواہیں اور مراعات تو نہ لیتے۔پی آئی اے کب برباد ہونا شرو ع ہوئی، اب تو یہ بھی یاد نہیں۔یہ وہ ادارہ ہے جہاں جہاز خریدے کم اور بھرتی زیادہ کیے گئے۔اس کی نجکاری کا سنتا ہوں توایسا لگتا ہے کہ ڈھلتی عمر کی سابقہ دوشیزہ ہے جو برگرپیزے کھا کھا کر اپنا بیڑا غرق کروا چکی ہے اور اب انتظارمیں ہے کہ بے شک خوابوں کا شہزادہ نہ سہی کوئی چھوٹا موٹا دربان ہی اس کا ہاتھ تھام کر ساتھ لے جائے۔

٭٭٭٭

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متعلق فلیش اپیل کا فیصلہ این ڈی ایم اے کرے گی۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ’فلیش اپیل‘ کیا ہوتی ہے؟۔میں سمجھاتاہوں۔یہ بالکل ایسے ہوتی ہے جیسے فقیر ’اللہ کے نام پہ بابا‘ کہنے کی بجائے کہہ دے’Get Blessings‘۔ انگریزی کا پردہ ڈالنے سے کئی بے عزت الفاظ بھی خوبصورت لگنے لگتے ہیں۔امداد کا لفظ سنتے ہی ایسا لگتاہے جیسے جھولی پھیلائی جارہی ہے البتہ فلیش اپیل کافی عزت دارانہ لفظ ہے۔ زیادہ تر کو سمجھ ہی نہیں آنی۔غربت کا بھی کوئی خوبصورت انگریزی ترجمہ کردینا چاہیے تاکہ ایک کول فیلنگ آسکے۔دعا ہے کہ فلیش اپیل کے بعد ہمیں فلیش رسپانس ملے، اُس کی فلیش تقسیم ہو،تاکہ حالیہ سیلاب جیسا فلیش بیک دیکھنے کونہ ملے۔

٭٭٭٭

ٹی 20ایشیاء کپ2025ءکے چھٹے میچ کے دوران پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے کھلاڑیوں میں دوریاں رہیں۔ایونٹ کے اہم ترین میچ میں ٹاس کے وقت کپتان سوریاکمار نے پاکستان کے سلمان علی آغا سے ہاتھ نہیں ملایا۔ میچ کے اختتام پر بھی بھارتی کھلاڑی، پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملائے بغیرہی ڈریسنگ روم سے چلے گئے۔دلچسپ بات یہ ہے بھارت یہ میچ جیت گیا تھاپھر بھی کھلاڑیوں کا منہ بنا رہا۔ وجہ تو آپ سب کو سمجھ آرہی ہوگی۔ایک دل جلے کے مطابق میچ ہارنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہمارا پسندیدہ کھیل کرکٹ نہیں رافیل گراناہے۔پیارے کھلاڑیو! جنگ کے میدان کی ہارکا غصہ کھیل کے میدان میں نہیں اتارتے۔ بھارت میں ویسے بھی پاکستان کے ذکر پر نفرت کا اظہار زندہ رہنے کیلئے ضروری ہوتا جارہاہے خصوصاً مسلمانوں کیلئے۔

اس کی سب سے بڑی مثال فلمی شاعرجاوید اختر کی ہے جنہیں اچانک یاد آیا کہ پاکستان تو ایک جہنم ہے۔ قبلہ اسی جہنم میں خوشی خوشی آکر شاعری بھی سناتے رہے۔یعنی کہا جاسکتاہے کہ شاعر کو شعر سنانے کے لیے جہنم میں بھی بلایا جائے تو وہ دوڑا چلا آتاہے۔اگرچہ جاوید اخترخود جہنم میں رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے دل کی تسلی کے لیے ذہن بدل کر اِسے جنت ڈکلیئر کردیا ہے۔

تازہ ترین