آج صبح اٹھا ہوں تو اخبار وہاں نہیں پڑا تھاجہاں روز صبح پڑا ہوتا ہے، اخبار تو نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے مگر تسلی نہیں ہوتی، ایک تو عمر بھر کی عادت کا مسئلہ ہے پھر کچھ اور فائدے بھی ہیں، سب سے بڑا یہ کہ اہل خانہ اخبار پڑھتا دیکھ کر کچھ دیر ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیتے ہیں، ہاتھ میں فون دیکھیں تو سمجھ جاتے ہیں کوئی بہت توجہ طلب کام نہیں ہو رہا لہٰذا گپوں یا ’’ضروری باتوں‘‘ کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ صبح صبح باتیں کرنا اور سننا کبھی بھی ہمارا پسندیدہ مشغلہ نہیں رہا۔ شاید یہ عادت ہم نے والد صاحب سے لی ہے۔ وہ صبح ذِکر اِلہی کیا کرتے تھے، دنیا اور دنیا والوں سے گریز کیا کرتے تھے۔ ہم صبح کے ذکر کی لذت سے تو ناآشنا ہیں مگر اہل دنیا سے اجتناب کی خواہش رہتی ہے ۔ خیر، اخبار نہیں ملا تو گھنٹی بجائی مگر کوئی نہیں آیا، مددگار کو فون کیا تو اس کا نمبر بند ہے، فون کی بیٹری خطرے کے نشان کے قریب پہنچ چکی ہے، رات کو بادام بھگونے بھول گیا تھا، بینک سے کال آئی ہوئی ہے، آج کریڈٹ کارڈ کے پیسے جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے، شام کو ایک ڈنر کی دعوت کی یاد دہانی کا میسج آیا ہوا ہے، لگے ہاتھوں فیس بک پر نظر ڈالی تو تازہ غزل کے لائیکس 200 کے قریب ہو چکے ہیں، دو چار شعر آپ بھی سن لیجیے’’آ مری ہم سفر چلا جائے / سر بھی جائے اگر چلا جائے/ ایک رستہ ہو منزلوں سے پرے/ اس پہ پھر عمر بھر چلا جائے/ جس طرف کوئی بھی نہیں ہو گا/دل کہے گا اُدھر چلا جائے/ہر طرف ایک سی ہے ویرانی/ اب تو اپنے ہی گھر چلا جائے‘‘غزل تو بہت لمبی ہے مگر آپ کی قوت انہماک پر اس سے زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں لگ رہا۔ فیس بک سکرول کر رہا ہوں تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی ٹیم سے شکست پر کچھ تبصرے نظر سے گزر رہے ہیں، ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اب بھارت ہم سے صرف کرکٹ میں ہی جیت سکتا ہے‘‘، یہ پڑھ کر ہم اپنی ٹیم کی شرمناک شکست بھول گئے، ذرا تسلی سی ہو گئی۔ ایک اور بات محسوس کی کہ کرکٹ میچ پر تبصرے کم ہیں اور ہندوستانی ٹیم کے رویے پر زیادہ۔ بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا، جسے ایک مہذب کھیل کی روح کے منافی قرار دیا گیا ۔ بلا شبہ، بھارت ذہنی طور پر ایک بیمار ریاست نظر آنے لگی ہے۔ مئی میں بھارت کو جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں جو خفت اٹھانا پڑی اسے مٹانے کا بہرحال یہ کوئی بالغانہ طریقہ تو نہیں ہے۔ ابھی پیاری بیٹی باران کا واٹس ایپ میسج آیا ہے کہ اسکول بیج والی جیکٹ لینے کیلئے پیسے جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ہے، پیسے فوراً بینک ٹرانسفر کریں اور سکرین شاٹ بھیجیں۔ دو چار منٹ میں اسکرین شاٹ بھیج دیا گیا۔ کھڑکی سے باہر نظر پڑی تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پہلے تو بادل بارش دیکھ کر گانے سنے اور گنگنائے جاتے تھے، اب پہلا خیال اپنی سولر بجلی کا آتا ہے۔ سولر کی ایپ کھول کر دیکھا تو بجلی معمول سے کم بنی ہے، اے سی بند کر دیا جائے تو بہتر ہو گا...پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدا کی۔ عطاالحق قاسمی صاحب کے میسج کا نوٹیفکیشن پاپ اپ ہوا ہے۔ وائس میسج ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ دو دن پہلے قاسمی صاحب کو نشان امتیاز ایوارڈ ملنے کی خوشی میں ایک تقریب منعقد ہوئی، میزبان تھے مسلم ہینڈ کے روح رواں پیر سید لخت حسنین مد ظلہ اور اپنے شعیب بن عزیز۔ تقریب میں ہی اطلاع ملی کہ قاسمی صاحب کی طبیعت کچھ ناساز ہے وہ نہیں آ پائینگے۔ مزاج پرسی کیلئے ہم نے قاسمی صاحب کو فون کیا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ اب انکا میسج سنا ہے تو قدرے تسلی ہوئی۔ انہوں نے بتایا کچھ ٹیسٹ ہوئے ہیں، رپورٹ آئیگی تو دوستوں کو اطلاع کی جائے گی۔آج صبح سےکالم لکھنے کی فکر میں ہوں مگر توجہ بٹ رہی ہے، ارتکاز نہیں کر پا رہا۔ آئیے چیٹ جی پی ٹی سے پوچھتے ہیں کہ کیا کم ہوتے ہوئےConcentration span پر کوئی تازہ تحقیق ہوئی ہے۔ جی، مائکروسافٹ کی ایک تحقیق کے مطابق ڈیجٹل میڈیا کی آمد سے پہلے ہمارا اوسط اٹنیشن سپین 12 سیکنڈ تھا جو اب 8سیکنڈ ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ گولڈ فش کا اٹینشن سپین 9سیکنڈ بتایا جاتا ہے۔ اکثر نمازی دوست بتاتے ہیں کہ وہ بڑے خشوع سے نماز کی نیت کرتے ہیں مگر کچھ ہی دیر میں دماغ دنیا کے دھندوں سے بھر جاتا ہے، یعنی انسانی دماغ کی عمومی ساخت ہی منتشر ہے، ڈیجیٹل میڈیا نے تو شاید آخری اور فیصلہ کن وار کیا ہے۔ ابھی ابھی یو ٹیوب کا ایک نوٹیفکیشن آیا ہے، پروفیسر مئیر شائمر اور کشور محبوبانی کی بحث ہو رہی ہے کہ کیا چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا آخری سین امریکا اور چین کی جنگ پر منتج ہو گا۔ بین الاقوامی تعلقات کے یہ ماہرین مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کشور کہتے ہیں 500 سال پہلے جب چین سب سے بڑی بحری طاقت تھی، برطانیہ اور دوسری مغربی طاقتیں مختلف ملکوں پر قبضہ کر رہے تھے، مگر چین نے ایسا نہیں کیا۔ چین کی حالیہ ترقی بھی جنگوں اور قبضوں کی مرہون منت نہیں ہے۔ اور آئندہ بھی چین جھگڑے سے بچے گا۔ جبکہ مئیر شائمر کہہ رہے ہیں کہ چین اب ایشیائی نصف کرہ پر کامل اثر و نفوذ چاہتا ہے، اور امریکا تماشائی بن کر یہ سب نہیں دیکھے گا۔ جھگڑا تو ہو گا۔ حضرت عباس تابش کا فون آ رہا ہے۔ یہ فون سننے کے بعد انشاءاللہ توجہ سے کالم لکھا جائے گا۔ تابش صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کہ اعزاز میں جو تقریب رکھی ہے اس کی صدارت ڈاکٹر خورشید رضوی سے کروانا ہے، ڈاکٹر صاحب لندن سے 4 اکتوبر کو لوٹیں گے، تو اس حساب سے تاریخ رکھتے ہیں۔ میں نے اتفاق کیا۔ خورشید رضوی صاحب کا شعر ہے’’وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی...یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے‘‘۔