میرے بڑے بھائی گاہے گاہے خاندان کے بزرگوں کے حالات بیان کرتے رہتے۔ مجھے فخر محسوس ہوتا کہ وہ خدارسیدہ لوگ تھے جن کا تعلق مظفرنگر سے تھا۔ یہاں اکبرِاعظم کے دور میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہوئے جنہوں نے شہر مظفرنگر کی بنیاد رَکھی۔
ہمارے آباواَجداد مظفرنگر کے قصبات شاہ پور اَور سہارنپور میں بسے، لیکن انگریز دور میں حصولِ رزق کے لیے پنجاب چلے گئے جہاں انگریزوں نے نہروں کا ایک جال بچھا رکھا تھا۔ ہمارے بعض بزرگوں نے محکمۂ انہار کے تجربےکار اِنجینئروں کی شاگردی اختیار کی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اِس محکمے کے ملازم ہو گئے۔
نانا سعید احمد اور دَادا عبدالمجید دونوں سگے بھائی اور حافظِ قرآن تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ شاہ اِسمٰعیل شہید کی تحریک اور معرکۂ بالاکوٹ میں سہارنپور اَور شاہ پور کے علما بھی شریک ہوئے تھے۔ نانا سعید احمد کو عربی اور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔ اُنہوں نے اسلامی علوم و فنون کی تکمیل مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے نابغۂ روزگار علمائےدین سے پائی تھی، جبکہ روحانی فیوض مولانا غوث علی شاہ پانی پتی سے حاصل کیے جو اَپنے دور کے بہت بڑے شیخِ طریقت تھے۔
نانا جی شادی کے بعد اپنے سسرال شاہ پور میں سکونت پذیر ہو گئے جہاں اُن کے سسر، جاگیردار رَحمت خان کے دیوان خانے میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ رحمت خان کو یہ علاقہ پٹھان حکمرانوں سے جاگیر کے طور پر ملا تھا۔ اُن کے دیوان خانے میں ابھی تک ہاتھی جھومتا تھا۔ نانا جی نے وہاں پہنچتے ہی مسجد کی امامت سنبھال لی اور علاقے میں بچوں کو اِسلامی تعلیم دینے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی جس کے بطن سے پانچ بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بیٹوں کے نام مخدوم احمد، مشتاق احمد، شفیق احمد، خلیق احمد اور نذیر احمد تھے۔
ماموں مخدوم احمد چک جھمرہ کے قریب موضع بابےوالا میں سکونت پذیر ہو گئے۔ اُن کے سسر عبدالحق محکمۂ انہار میں سرویئر تھے۔ اُن کے ایک بھائی عبدالجبار نے تین ماموؤں کو ڈرائنگ کا ہنر سکھایا۔ نانی کے خاندان میں فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کا رجحان فراواں تھا۔ مسجد کی امامت سنبھال لینے کے بعد نانا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اِس لئے اُنکے بڑے بھائی اُنہیں پانچ روپے ماہانہ وظیفہ دیتے اور خاندان کے دوسرے افراد کی بھی ضرورتیں خاموشی سے پوری کرتے رہتے۔
ہمارے خاندان کی ایک شاخ ضلع مظفرنگر کے موضع بَنَت میں آباد ہو گئی تھی۔ دونوں خاندان اگرچہ الگ الگ قصبوں میں رہتے تھے، مگر خوشی اور غمی کے موقع پر اکٹھے ہو جاتے۔ سہارنپور کی لڑکیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ بہت سادہ مزاج، سگھڑ اور گرہستن تھیں جبکہ بَنَت کی لڑکیاں لکھ پڑھ لینے کی وجہ سے نسبتاً ہشیار سمجھی جاتیں۔ ڈاکٹر اسرار اَحمد جو رِشتے میں میرے بھتیجے تھے، اُن کی والدہ فردوسی بیگم کا تعلق بَنَت سے تھا۔ اُن کی تعلیم و تربیت کی بدولت اُنکے دونوں بڑے بیٹوں اظہار اَحمد اور اَسرار اَحمد نے ایسے کارنامے سرانجام دیے جن سے اُن کا اپنا، اپنے خاندان اور اَپنے وطن کا نام روشن ہوا۔ اُنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتیں ٹھیک طور پر بروئےکار لانے کا ہنر اپنی والدہ سے سیکھ لیا تھا۔
اظہار اَحمد نے 1947ءمیں انجینئرنگ کالج مغل پورہ سے سول انجینئرنگ میں گریجویشن کا امتحان دیا اور ہندوؤں اور سکھوں سے سخت مقابلے میں اَوّل آئے جو کسی عجوبے سے کم نہ تھا۔ وہ اُس وقت تک جماعتِ اسلامی سے متاثر ہو چکے تھے اور کچھ دیر محکمۂ انہار میں کام کرنے کے بعد پی ٹی ڈی سی سے وابستہ ہو گئے جو پورے پاکستان میں بڑے بڑے کارخانے لگا رہی تھی۔مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد اُنہوں نے کنکریٹ سیکٹر میں ایک ایسا لازوال کارنامہ سرانجام دیا جو اِنسانی ذہانت، قابلیت، غیرمعمولی اِستقامت اور عوام سے محبت کا شاہکار بن گیا۔ اُنہوں نے پری سٹریسڈ کنکریٹ سے ’اظہار تیار چھتیں‘ بنانا شروع کیں جو نہایت پائیدار، خوبصورت اور چھتیں ڈالنے کے عمل کے مقابلے میں بہت محفوظ اور سستی تھیں۔
وہ اِظہار تیار چھتوں کو ایک بڑے ٹرالے میں ڈالتے، پورے شہر کا چکر لگاتے اور لاؤڈاسپیکر پر مسلسل اُن کی خصوصیات بیان کی جاتیں۔ اُن کی اَن تھک کوششوں کے نتیجے میں پورا پاکستان اور بالخصوص غریب طبقہ اِن تیار چھتوں سے مستفید ہو رہا ہے۔ جب اظہار صاحب کا کاروبار چل نکلا، تو اُن کے بعض دوستوں نے اظہار تیار چھتوں کو رجسٹر کروانے کا مشورہ دِیا۔ اِس مردِ درویش نے جواب دیا کہ مَیں نے یہ ٹیکنالوجی عام لوگوں کے لیے ایجاد کی ہے، میرے پاس جو بھی آئے گا، اُسے یہ ٹیکنالوجی مفت دوں گا۔ اُن کی ایک خواہش یہ بھی تھی کہ غریبوں کے لیے سستے مکان بنائے جائیں۔ اُن کی اِس خواہش کی تکمیل اُن کے صاحبزادے ایوب اظہار کر رہے ہیں جنہوں نے ڈھائی مرلے مکان کے کئی ماڈل بھی تیار کر لیے ہیں۔
اُن کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اسرار اَحمد کا تجربہ دینی اعتبار سے بڑا حیات افروز رہا۔ اُنہوں نے 1947میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دیا، تو پورے ضلع حصار میں اوّل آئے۔ پھر ایم بی بی ایس کیا اور اِسی دوران سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے اسلام کو نظامِ حیات کے طور پر پوری طرح سمجھا۔ خود اِسلامی علوم کا نہایت گہرا جائزہ لیا اور جدید عہد کے بلند مقام مفسر اور مُبَلِّغ بن کے اُبھرے۔ اُنہوں نے علامہ اقبال ؔکی شاعری سے یہ نکتہ سمجھا کہ مسلمان تارکِ قرآن ہو کر دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ اِس عذاب سے نکلنے کے لیے اُنہیں قرآنِ حکیم کو اَپنی زندگی کا محور بنانا ہو گا۔ اِس موقف کی اشاعت کے لیے اُنہوں نے اور اُن کے خاندان نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ قرآن اکیڈمی قائم کی اور قریے قریے قرآن سوسائٹی کا سلسلہ منظم کیا۔ قرآن کے موضوعات پر لاکھوں لیکچر دیے۔ ڈاکٹر صاحب کے نواسے مومن صاحب اُن کی لمبی تقریروں سے آٹھ دس منٹ دورانیے کے کلپ تیار کر رہے ہیں جن کا بڑا خیرمقدم ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اِن نیک لوگوں کی کوششوں سے قرآن فہمی کا شوق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا، انگلستان اور وُہ تمام ممالک جہاں اُردو پڑھی جاتی ہے، اُن میں قرآن سوسائٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔