سعودی عرب اور پاکستان کا رشتہ محض دو ملکوں کی سفارتی تاریخ نہیں۔ یہ دو دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ ایک ایسی صدا ہے جو حرم کے میناروں سے بلند ہوتی ہے اور مینارِ پاکستان کی فضا ئوں میں گونجتی ہے۔اس چودہ سو سال پرانے تعلق کی جڑیں ریت میں بھی ہیں اورسبز گھاس میں بھی۔ اسکی خوشبو زمزم کے چشمے سے اٹھتی ہے اور دریائے سندھ کے پانی میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ دوستی دو دریاؤں کی مانند ہے، جو اپنی اپنی سمت سے نکلتے ہیں اور محبت ِ رسولﷺ کےسمندر میں ضم ہو جاتے ہیں۔1947۔پاکستان ایک خواب کی صورت دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ ایک ایسا خواب جو لاکھوں جانوں کے خون سے تعبیر ہوا۔ اور سب سے پہلے جس نے اس خواب کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھا، وہ سعودی عرب تھا۔ یہ پہچان محض کاغذ پر دستخط نہیں تھی۔ یہ ایک بھائی کی آنکھ سے بہنے والا وہ آنسو تھا جسکے تھامنے کیلئے دوسرے بھائی کی ہتھیلی موجودتھی۔
ابتدائی برس مشکل تھے۔ غربت، تنہائی اور اندھیروں کا بوجھ پاکستان پر بھاری تھا۔ مگر اسی وقت سعودی عرب نے اپنے دروازے کھولے۔ حج کے راستے آسان ہوئے۔ مدینہ کی فضاؤں میں پاکستانی لہجوں کی دعائیں شامل ہوئیں۔ جیسے ایک ہی اذان دو مختلف فضاؤں میں سنائی دے۔پھر شاہ فیصل آئے اور تاریخ بدل گئی۔ ان کا وجود پاکستان کے لیے چراغ اور تیل کی مانند تھا۔ ایک ایسا چراغ جو اخوت کی روشنی دیتا ہے۔ ایک ایسا تیل جو اس روشنی کو بجھنے سے بچاتا ہے۔ انہوں نے کہا’’پاکستان کی بقا ہماری اپنی بقا ہے‘‘۔ یہ جملہ ایک اعلان نہیں، ایک قَسم تھی۔ ایک ایسی قسم جو دلوں کی کتاب میں لکھی گئی۔1974کی لاہورمیں اسلامی سربراہی کانفرنس تاریخ کا وہ لمحہ ہے جسےکبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔جب زمزم کا چشمہ اور سندھ کی روانی ایک ہی تصویر میں بہہ رہے تھے۔
پھر شاہ فیصل کی شہادت۔ یہ خبر پاکستان پر ایسے بجلی بن کرگری جیسے گھر کا چراغ بجھ جائے۔ مگر یہ چراغ اپنے پیچھے ایک ایسی روشنی چھوڑ گیا جو آج بھی فیصل مسجد کی اذانوں میں گونجتی ہے۔ اسلام آباد کی وہ مسجد دراصل دوستی کا مینار ہے، جو ہر روز ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کا رشتہ انتہائی تقدیس والا ہے۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لاکھوں پاکستانی سعودی عرب گئے۔ مزدور، ڈاکٹر، انجینئر، سب اپنے خواب لے کر حجاز کی ریت پر اترے۔ ان کے پسینے کی خوشبو اور سعودی تیل کی روشنی نے آپس میں گھل مل کر ترقی کی ایک نئی کہانی بُنی۔ یہ کہانی خون اور پسینے کی روشنائی سے لکھی گئی تھی۔
دفاع کے میدان میں بھی یہ تعلق مضبوط ہوا۔ 1967 اور 1973 کی جنگوں میں پاکستانی پائلٹ سعودی فضاؤں کے محافظ بنے۔ یہ منظر ریگستان میں کھلتے پھول جیسا تھا۔ ناقابل یقین مگر حقیقت۔
وقت بدلا۔ چہرے بدلے۔ نسلیں بدلیں۔ مگر رشتہ نہ بدلا۔ محمد بن سلمان کے دور نے اس دوستی کو نئی معنویت دی۔ اب بات صرف دلوں کی نہیں رہی۔ اب بات سرمایہ کاری، معیشت، ٹیکنالوجی اور مستقبل کے خوابوں کی ہے۔ ریاض اور اسلام آباد ایک دوسرے کے ہمسفر بن گئے ہیں۔ دونوں ستارے الگ کہکشاؤں سے نکلے مگر ایک ہی روشنی میں جگمگانے لگے ہیں۔
ہم پاکستانی مسلمان ہمیشہ یہ سمجھتے آئے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت ایمان کا حصہ ہے۔ اپنی جان قربان کرنا فرض ہے۔ ہماری تاریخ اس گواہی سے بھری ہے۔ لیکن آج پہلی بار یہ صدا ریاض سے بھی آئی ہے۔ اب مکہ اور مدینہ کے مینار اور پاکستان کی مسجدوں کے گنبد ایک دوسرے کے محافظ بن گئے ہیں۔یہ اعلان بھارت کے کانوں میں گونجا ہوگا۔ اور وہ کانپ گیا ہوگا۔ کیونکہ اب اس کے لیے پاکستان پر میلی نظر ڈالنا آسان نہیں۔ اسے سو بار سوچنا ہوگا۔ کیونکہ سعودی عرب کے ایک اشارے پر لاکھوں بھارتی مزدور گلف سے اپنے وطن لوٹائے جا سکتے ہیں۔ اور جب گلف کی زمین ان کے قدموں سے خالی ہوگی تو دہلی کے بازاروں میں سناٹا اترے گا۔ معیشت کی رگوں میں جب خون کی روانی بند ہو جائے تو جسم ہلنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہی حال بھارت کا ہوگا اگر وہ پاکستان کو کمزور سمجھنے کی غلطی کرے گا۔یہ معاہدہ محض ایک تحریر نہیں۔ یہ ایمان کا عہد ہے۔ یہ دوستی کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو وقت کو دیا گیا ہے: یہ رشتہ ٹوٹنے والا نہیں۔سعودی عرب اور پاکستان کی محبت محض ماضی کی یاد نہیں۔ یہ حال کی دھڑکن ہے۔ یہ مستقبل کا وعدہ ہے۔ یہ دوستی تاریخ کے اوراق پر نہیں، دلوں کی کتاب پر لکھی گئی ہے۔ اور یہ تحریر کبھی مٹنے والی نہیں۔کچھ لوگ یہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ سعودی عرب نے یہ معاہدہ اسرائیل کے خوف سے کیا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سعودی عرب کی فضاؤں میں پہلے ہی پاکستانی فوجی موجود ہیں، جیسے حرم کے میناروں پر پہرہ دینے والے خاموش محافظ۔ یہ رشتہ محض تحریر کا نہیں، اعتماد اور اخوت کی دھڑکن کا ہے۔ پاکستان نے کبھی مکہ اور مدینہ سے آنے والی آواز کو صرف سیاست کی ہدایت نہیں سمجھا، بلکہ اسے ایمان کی صدا جانا۔ اور جب اس معاہدے کے لمحے میں ہمارے وزیرِاعظم کا استقبال ہوا، تو وہ محض دروازے پر بچھا ہوا قالین نہیں تھا، وہ ایک اعلان تھا۔ ایک روشنی جو دشمنوں کی آنکھوں میں ڈالی گئی۔ ایک دھڑکن جو اسرائیل کے ایوانوں میں سنائی گئی۔ ایک صدا جو نریندر مودی کے کانوں میں گونجی۔ گویا سعودی عرب نے یہ منظر نیتن یاہو کو دکھایا اور پاکستان نے یہ چراغ دہلی کی آنکھوں کے سامنے روشن کیا۔