نیپال کی سیاست میں ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب جنریشن زی (Gen Z) کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کے دوران اُس وقت کے وزیرِاعظم کے پی شرما اولی نے اپنی حفاظت کے لیے فوج سے مدد طلب کی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مظاہروں کے درمیان سابق نیپالی وزیرِاعظم کے پی شرما اولی نے نیپالی فوج کے سربراہ، جنرل اشوک راج سگدل کو فون کیا اور اِن سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مدد مانگی۔
اس مدد کے سوال پر نیپالی فوج کے سربراہ نے انکار اور دو ٹوک جواب دیتے ہوئے سابق نیپالی وزیرِ اعظم سے کہا کہ ’ہیلی کاپٹر صرف اس صورت میں ملے گا جب آپ استعفیٰ دے دیں گے۔‘
یہ انکشاف نیپالی نیوز پورٹل اوکیرا کی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 9 ستمبر کو جب کٹھمنڈو کی سڑکیں نوجوانوں کے غیظ و غضب سے بھر گئیں اور مظاہرین کےپی شرما اولی کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئے تو بوکھلاہٹ میں وزیرِاعظم نے فوری طور پر فوجی سربراہ کو فون کر کے ملک سے انخلا کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا۔
پسِ منظر
کے پی اولی نے 2024ء میں دوسری بار اقتدار سنبھالا تھا، اِن پر کرپشن، وسائل کی بدانتظامی اور اقربا پروری کے الزامات تھے لیکن عوام میں غصہ اس وقت بڑھا جب حکومت نے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز پر پابندی عائد کی۔
نیپال کے نوجوانوں (جین زی) نے اس موقع پر نعرہ بلند کیا کہ ’صرف آن لائن بات کافی نہیں، اب سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔‘
اس کے بعد نوجوانوں کی حکومت سے ناراضی سڑکوں پر حقیقی احتجاج میں بدل گئی، احتجاج کے دوران ’نیپو بے بی‘ مہم وائرل ہوئی جس نے سیاسی خاندانوں کی ناجائز دولت اور پُرتعیش طرزِ زندگی کو بھی بے نقاب کیا۔