شدت سے محسوس ہو رہا ہے کہ سندھ کے سب پیر و جواں محبت کے پیاسے ہیں۔پرانے پاکستانی اور نئے پاکستانیوں کی قربتوں پر لکھی جمعرات کی تحریر ہر عمر کے اہل سندھ کے دل میں اتر گئی ۔میرے دل میں یہ احساس موجزن ہوا یہ کسک اب بھی سندھ میں قدم قدم موجود ہے میں تو سندھ کے پانی کو مئے سندھ کہتا ہوں جو بھی اس مشروب سے سرشار ہو گیا وہ عشق کے کئی مرحلے پار کر گیا۔ مکرم سلطان بخاری کا شکریہ کہ انہوں نے یاد دلایا کہ عبدالکریم خالد نہیں کریم بخش خالد تھے جو اردو اور سندھی کے ماہر ابلاغیات تھے مزید خوشی ہوئی جب لاہور سے انتہائی سینئر ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی صاحب کا فون بھی آیا انہوں نے بھی کریم بخش خالد صاحب کی صحبتوں کا ذکر کیا۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھ کر تبادلہ خیال کا دن آج ان قربتوں پر بات کریں۔ جواں عزم صحافی فرحان تنیو اردو سندھی دونوں میں اظہار خیال کر لیتے ہیں ۔وہ اپنے ہم عمروں کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ سوال کر رہے تھے کہ جب 50 اور 60 کی دہائی میں اتنی نزدیکیاں تھیںتوپھر دوریاں کس نے پیدا کیں۔
جب چلے تو ایک تھے ہم پھر جدا کس نے کیا
تیرے میرے درمیاں یہ فاصلہ کس نے کیا
کون محروموں کو یہ بھی سوچنے دیتا نہیں
آخر ان محرومیوں میں مبتلا کس نے کیا
معاف کیجئے میں قرب کے سیل میں بہہ گیا ۔ بات شروع کرنا تھی ایس ایم ڈی اے سے یعنی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے سے
Strategic mutual defence agreement
یقیناً ایک اہم پیشرفت ہے بجا طور پر اس کی پذیرائی ہو رہی ہے ۔پاکستانی عساکر ہوں یا عوام حرمین شریفین کیلئے ہمیشہ فکر مند رہے ہیں ۔ہر جمعہ کی نماز کے بعد دعا کی جاتی ہے کہ یا اللّٰہ حرمین شریفین کی حفاظت فرما اور جب پاکستان کو یہ سعادت نصیب ہو کہ وہ باقاعدہ ایک سمجھوتے کے ذریعے ان مقامات مقدسہ کے تحفظ پر مامور ہو تو واہگہ سے گوادر تک ہر پاکستانی اپنی مشکلات بھول کر اس پر خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرے گا۔ دونوں ملکوں نے طے کیا کہ کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا تو اب یہ تحفظ کا عزم یک طرفہ نہیں ہے ۔حر مین الشریفین کی حفاظت کیلئے پہلے بھی ہماری پاک افواج کارہائے نمایاں انجام دے چکی ہیں ۔اب اس امر پر بھی دستخط ہوئے ہیں کہ پاکستان پر حملے کی صورت میں سعودی عرب کی افواج پاکستان کی مدد کیلئے آئیں گی ۔وزیراعظم شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ اس موقع پر انہیں غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا ان کے جہاز کو سعودی ایئر فورس کے لڑاکا جہاز اپنے جلو میں لے کر ریاض پہنچے۔
پورے پاکستان کو اس معاہدے کی تفصیلات کا انتظار ہے۔ سب کی دلی دعا ہے کہ سمجھوتے سے پاکستان کے سیاسی معاشی علمی تجارتی حالات بہتر ہوں قرضوں کے بوجھ میں بتدریج کمی آئے۔ غربت کی لکیر سے نیچے 48 فیصد ہم وطن لکیر سے اوپر آئیں ۔ حملے کا خطرہ ہمیں ازلی دشمن بھارت سے رہتا ہے مگر اس کا جواب تو ہم خود دیتے رہے ہیں۔ اب ہم اسرائیل کی جارحیت کے خطرے سے دوچار ہیں ۔قطر جہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں وہاں اسرائیل نے امریکہ کو باخبر کر کے حملے سے گریز نہیں کیا۔ وہ اب کہیں بھی حملہ کر سکتا ہے ۔دو سال سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اب تو اسرائیل کے ٹینک شہر میں باقاعدہ داخل ہو گئے ہیں ۔غزہ کےبے کسوںکیلئے اس معاہدے میں کوئی بشارت ہے یا نہیں۔وزیراعظم یہ تاریخی معاہدہ کر کے اسرائیل کا زہریلا پودا کاشت کرنے والے برطانیہ کے دورے پر پہنچ گئےہیں ۔پھر امریکہ جا رہے ہیں جس کی شہ پر اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے مسلمان ملکوں کے اتحاد کیلئے کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں منعقد کی تھی ۔اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں وہ اسلامی ملکوں کے تیز رفتار دورے پر ریاض، طرابلس، متحدہ عرب امارات کے سربراہوں سے ملنے گئے تھے ۔ابوظہبی میں انٹرویو کے دوران مجھے کہا تھا کہ میں مسلم ملکوں کے درمیان ایک دفاعی معاہدے کیلئے کوشش کر رہا ہوں ۔واپس آئے تو ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اللّٰہ کرے یہ معاہدہ بھٹو صاحب کی آرزو پوری کرے۔
اب پھر ہم دریائے سندھ کے آس پاس آ جاتے ہیں۔
صدیوں سے بڑی شان سے بہتے ہوئے سندھو
اردو تری رعنائی ہے سندھی تری خوشبو
سید سبط حسن یاد آتے ہیں، ماضی کے مزار۔ موسیٰ سے مارکس۔ ایسی تحریروں نے پرانے پاکستانیوں اور نئے پاکستانیوں کی ذہنی آبیاری کی ۔ابراہیم جوکھیو، سوبھو گیان چندانی نے انسان کی سربلندی کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ کامریڈ جمال الدین بخاری اسی دھن میں ماسکو تک جا پہنچے ۔پیر صاحب پگاڑو سے نیاز مندی رہی انہیں کتابوں سے عشق تھا۔ وہ بعض اہم کتابوں کی فرمائش کرتے تو ہم ان کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔ عبدالرزاق سومرو اب سو سال کے ہو گئے ہیں۔ حرف کے فروغ میں ان کا کردار قابل رشک ہے ۔مخدوم طالب المولا سے بہت صحبتیں رہی ہیں بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ مخدوم امین فہیم خود بھی شعر کہتے تھے اردو کے شعراء کی میزبانی بھی کرتے تھے۔ ذکر شہید پاکستان حکیم محمد سعید کا بھی ہونا چاہیے ۔جنہوں نے پاکستان سے پاکستانیوں سے محبت سکھائی۔ مولانا غلام مصطفی خان کی پھیلائی ہوئی روشنی سے کتنی نسلیں فیضیاب ہو رہی ہیں۔ اردو اور سندھی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی علمی ادبی سماجی خدمات کا اعتراف اردو اور سندھی دونوں حلقوں میں بہت احترام سے کیا جاتا ہے۔
اب یہ سوال کہ دوریاں کیوں ہوئیں، بہت اہم ہے اور موجودہ مکدر فضا دور کرنے کیلئے اس کا جواب منطق ،تاریخ، معیشت کی روشنی میں دیا جانا چاہیے۔ میں تو اپنی صرف یادداشتوں پر انحصار کر رہا ہوں۔ بہت سے نام کوشش کے باوجود یاد نہیں آ رہے ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اردو کے اتالیق سے میری ملاقات رہی ہے۔ میں ہندوستان جا رہا تھا تو انہوں نے کئی خطوط اپنے منقسم خاندان کے لوگوں کے نام دیے تھے۔ تاج بلوچ تاجل بےوس یاد آ رہے ہیں ظفر اجن کی یاد بھی تازہ ہو رہی ہے۔ حال ہی میں ذوالفقار ہالی پوٹو کی کتاب’’کراچی میرے حصے کا‘‘ اسی یگانگت کی مثال ہے ۔شہناز شورو کی کہانیاں کتنی رواں رومانی اردو میں ہوتی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی کتنی بے عیب اردو لکھتی ہیں۔
میری درخواست ہوگی سندھ کی یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو شعبہ سندھی اور تاریخ سے کہ وہ پاکستان کے مختلف ادوار پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کروائیں۔ ابھی کچھ لوگ حیات ہیں جنہوں نے قربتوں کا یہ سنہری دور دیکھا ہے۔ ان کی یادیں یکجا کی جائیں۔ سندھی نظم اور کہانی عالمی معیار کی ہے اسے اردو میں منتقل کریں آج کی نسل یقینا ً قریب آئے گی۔