سعودیہ میں ہمارے وزیراعظم کا استقبال دیکھ کر’موگیمبوخوش ہوا‘۔ یہ مظاہرہ فضاسے ہی شروع ہوگیا تھا جب لڑاکاطیاروں نے اُنہیں اپنے جلو میں لے کرویلکم کیا۔ بے شک یہ لڑاکا طیارے تھے لیکن اُ س وقت معصوم طیارے لگ رہے تھے۔ سب کچھ معمول سے ہٹ کر تھااور کسی بڑی خوشخبری کا پیش خیمہ لگ رہاہے۔جیسے کُبے کو لات راس آجاتی ہے اسی طرح ہمیں مسلسل کچھ لاتیں راس آتی جارہی ہیں۔انڈیا نے حملہ کیا تومنہ کی کھانی پڑی دُنیا ہماری ہم نوا ہوگئی، لات راس آگئی۔سیلاب آیا تو ڈاکوؤں کا مسکن کچے کا علاقہ بھی غرق ہوگیا، لات راس آگئی۔اِدھرانڈیا نے پانی بند کیا اُدھرامریکہ نے پچاس فیصدٹیرف لگا کر انڈیاکا مکو ٹھپ دیا، لات راس آگئی۔اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا، ہم عرب دنیا کے منظور نظر بن گئے، لات راس آگئی۔ پاک سعودیہ معاہدے کی یہ لائن تو شریکوں کو مرچیں لگا گئی کہ’ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا‘۔اس جملے کاصحیح مزالیناہے تو انڈین چینل پر اینکروں کے کچکچاتے دانت دیکھئے یا اسرائیل کی گھمبیر خاموشی پرغور کیجئے۔‘قرائن بتارہے ہیں کہ عنقریب کوئی بڑی ذمہ داری ملنے والی ہے شائد ہمیں دفاع وطن کے بعد دفاع عرب کا خطاب بھی مل جائے۔
٭٭٭٭
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قراردادامریکہ نے چھٹی بار ویٹو کردی ہے۔ اندازہ کریں کہ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے دس رکن ممالک نے یہ قرارداد پیش کی تھی جسے امریکہ نے ایک ہاتھ بلند کرکے ویٹو کر دیا۔ ویٹو کیا ہوتاہے اسے آسان زبان میں کہتے ہیں ’لُچ تلنا‘۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے سب گھر والے شادی پر متفق ہوں اور اچانک پھوپھی اٹھ کر کہہ دے’یہاں شادی ہوئی تو میری لاش ہی دیکھو گے‘۔غیر اہم ممالک ویٹو کا حق نہیں رکھتے، اُن کے پاس صرف’گھسیٹو‘ کا حق ہے سو وہ اپنے معاملات یواین او میں گھسیٹتے رہتے ہیں۔اسرائیل عرب خطے کی واحد ایٹمی طاقت ہے کیونکہ اس نے خطے کے کسی اور ملک کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے ہی نہیں دی۔ اسی بدمعاشی کے بل بوتے پر وہ مصر، یمن،شام، فلسطین، لبنان، ایران اورقطر پر حملے کرچکا ہے۔ پاکستان اور سعودیہ کے تازہ معاہدے سے اگر پاکستان کو پہرے داری کی ذمہ داری مل گئی تو اندازہ لگائیں کہ مڈل ایسٹ کی صورتحال کیا ہوگی۔
٭٭٭٭
سیالکوٹ میں مویشی چوری ہوگئے تو پنچایت بلائی گئی۔جن کے مویشی چوری ہوئے تھے انہوں نے مبینہ چوروں کا نام بتایا۔اس پر’پنچایت عالیہ‘ نے مدعیان سے کھلی قبر کے اندر قرآن پر حلف لیا۔خبرمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ قبرتازہ کھودی گئی تھی یا کسی مردے کو ڈسٹرب کیا گیا۔اگر تو قبر تازہ تھی تو یہ محض ایک گڑھا تھا اور اگر اندر مردہ یا ہڈیاں بھی موجود تھیں تو یہ بدتہذیبی بھی ہے، غیر اخلاقی بھی، غیر قانونی بھی اور غیر انسانی بھی۔پنچایتوں اور جرگوں میں اکثر ایسے فیصلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔کئی جگہ توملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بھڑکتے ہوئے کوئلوں تک سے گزار دیا جاتاہے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے گاؤں کے بابے رحمتے کا حوالہ دیا کرتے تھے جو سب کے فیصلے کرتا تھا اور سب اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتے تھے تاہم یہ نہیں بتایا کہ بابے کے فیصلے ٹھیک بھی ہوتے تھے یا نہیں۔اسی طرح کے ایک بابے کےسامنےبھینس چوری کا ملزم پیش ہواجو اس کا اپنا داماد تھا۔بابے نے پوچھا سچ سچ بتاؤ کیا تم نے بھینس اُٹھائی تھی؟ ملزم نے فرد جرم سے انکار کیا۔بابے نے ایک بھینس منگوائی اور دامادکو کہا اسے اٹھاؤ۔داماد نے کوشش کی لیکن ناکام رہا۔بابے نے شارٹ آرڈر سنادیاکہ ثابت ہوا ملزم کسی صورت بھینس نہیں اٹھا سکتا اس لیے باعزت بری کیاجاتاہے۔
٭٭٭٭
اگلی خبر بھی قبروں سے متعلق ہے۔ہنگری میں قبر کھودنے کا آٹھواں بین الاقوامی مقابلہ ہنگری کی ٹیم نے جیت لیا ہے۔ہرسال ہنگری کی ”قبرستان ایسوسی ایشن‘‘ اس مقابلے کا اہتمام کرتی ہے جس میں دو افراد پرمشتمل ہر ٹیم کو دو گھنٹے کے اندرتقریباً ڈیڑھ میٹرگہری قبر کھودنی ہوتی ہے۔جیتنے والی ٹیم کو’ورلڈ گریوڈِگنگ چیمپئن‘ یعنی عالمی گورکن کا خطاب دیا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مقابلے کا مقصد نوجوانوں کو گورکن بننے کی طرف راغب کرنا ہے تاکہ وہ یہ اعلیٰ نوکری حاصل کرکے اپنا مستقبل تابناک اور’قبرناک‘ بناسکیں۔پاکستان سے بھی اس مقابلے میں نوجوانوں کو جاناچاہیے، خصوصاً اُن کو جو ہرجھگڑے کے موقع پریہ جملہ بولتے ہیں ’میں تمہاری قبر کھود دوں گا‘۔گورکن بھی ایک معزز انسان ہوتاہے۔گورکن نہ ہوتو ہم اپنے پیاروں کو کیسے دفنائیں۔مرنے کے بعد یہی وہ آخری شخص ہوتاہے جسے آخری اینٹ لگاتے ہوئے لحد کی مٹی دیکھتی ہے۔ہنگری میں تو دو توانا نوجوانوں کی ٹیم اس مقابلے میں قبر کھودتی ہے ہمارے ہاں تو اکیلا کفن چور یہ کام کر گزرتاہے۔ایک جگہ دعائیہ تقریب تھی،ایک صاحب اٹھے اور کہنے لگے دعا کریں کہ میرے کام میں برکت پڑ جائے۔پیچھے سے کسی کی چیختی ہوئی آواز آئی’آمین مت کہنا یہ گورکن ہے سب ٹپک جاؤ گے‘۔
٭٭٭٭
پاکستان انڈیا میچ کے متنازع ریفری’اینڈی پائی‘ نے معافی مانگ لی ہے۔کم بخت کا نام سن کر ایسالگتا ہے لاہوریا ہے۔اس کاپورا نام ہونا چاہیے اینڈی پائی جان۔ریفری اگر کہیں سے ریفر ہواہوساری گیم کا مزا کرکرا ہوجاتاہے۔انڈیا نے کھیل میں سیاست کا زہر گھول کر شائقین کو مایوس کیا ہے۔اگر یہی کام کرناہے تو کرکٹ میچ پاک بھارت بارڈر پر رکھ لیا کریں۔گیند توپ میں کر چلایا کریں،کیچ جہاز میں بیٹھ کر پکڑا کریں،وکٹوں کی جگہ تین میزائل لگا دیں، بیٹسمین کے ہاتھ میں بلے کی جگہ کلاشنکوف پکڑا دیں اورنام رکھ دیں سندور بمقابلہ بنیان مرصوص۔یہ مقابلہ جیت کر دکھائیں تو مانیں۔اینڈی پائی جان نے معافی اس لیے نہیں مانگی کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہواہے اصل میں انہیں اپنے کیرئیر کی بربادی کا احساس ہوا ہے۔