• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا کو چونکا دینے والے پاک سعودی دفاعی معاہدے نیز قطر، امارات اور بحرین وغیرہ سمیت مزید عرب ریاستوں کے بھی پاکستان کے ساتھ ایسے ہی معاہدوں کے امکانات نے دنیا بھر میں پہلے ہی سے جاری اس بحث میں کئی گنا زیادہ شدت پیدا کردی ہے کہ کیا امریکہ عالمی معاملات میں غیرمتعلق اور بے اثر ہوتا جارہا ہے؟ عشروں سے عملاً پوری عالمی برادری کی قیادت کرتے چلے آنیوالے ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ حصہ کس چیز کا ہے؟ اس سوال کا درست جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ صورت حال اسرائیل سے امریکہ کے اندھے عشق کا نتیجہ ہے جس میں مبتلا تو ہر دور ہی کی امریکی قیادت رہی ہے لیکن جناب ڈونلڈ ٹرمپ اس مقابلے میں سب سے بازی لے گئے ہیں۔ غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کی جس دھڑلے سےوہ پشت پناہی کررہے ہیں، ماضی میں اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کیلئے امریکہ کے قریبی دوست قطر کے دار الحکومت دوحہ میں اسرائیل کے میزائل حملے پر ٹرمپ نے جو ہائپوکریٹیکل کردار ادا کیا، وہ اپنی سلامتی کے حوالے سے امریکہ پر اندھااعتماد کرنے اور بار بار کے تلخ تجربات کے باوجود سبق نہ سیکھنے والے بھولے عرب حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کا سبب بن گیا۔ اس کے بعد اب دوردور تک ایسے کوئی آثار نہیں کہ عرب ریاستوں میں امریکہ کو پہلے جیسا اثر و رسوخ حاصل ہوسکے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرادادوں کو مسلسل ویٹو کرکے اور صہیونی حکمرانوں کو قتل و خون کا بازار گرم رکھنے کیلئے ہتھیاروں اور مالی وسائل کی مسلسل فراہمی خود امریکہ کے اپنے پارلیمانی اداروں ، سماجی تنظیموں اور عام لوگوں میں شدید نکتہ چینی کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ غزہ میں نسل کشی کا جو وحشیانہ عمل گزشتہ دو سال سے جاری ہے ، اس میں ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت اور تعاون کیخلاف قیام امن کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم پیس ایکشن کے صدر کے مطابق امریکہ میں عوامی بغاوت کی سی کیفیت ہے جس کا واضح اظہار رائے عامہ کے جائزوں سے ہوتا ہے جبکہ امریکی کانگریس میں بھی ایسے ارکان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دیتے ہیں اور اس عمل میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی اور دیگر طریقوں سے جاری امریکی تعاون کے شدید مخالف ہیں۔ دو ماہ پہلے جولائی کے اواخر میں ڈیموکریٹ اور آزاد سینیٹرز کی اکثریت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی روکنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اگست میں کانگریس کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں امن کی حامی تنظیموں نے کانگریس کے ٹاؤن ہال اجلاسوں میں احتجاج کیا اور اسرائیل کو بموں اور ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں سیاسی لہر اسرائیل کے مظالم اور امریکہ کی جانب سے اس کی حمایت کیخلاف ہوچکی ہے۔ حالیہ گیلپ پول جائزہ اس دعوے کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ کردار کی اندھا دھند حمایت کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی امریکہ اپنے لیے نفرت کی فصل کاشت کررہا ہے۔

گزشتہ جمعرات کو اس صورت حال کا بھرپور مظاہرہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چھٹی بار ہوا۔ غزہ میںفوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور محصور علاقے میں امداد کی ترسیل پر عائد تمام پابندیاں ختم کرنے کے مطالبے پر مبنی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے دس ارکان کی تیار کردہ قرارداد کی 14 رکن ملکوں نے مکمل حمایت کی لیکن امریکہ نے اسے ویٹو کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ پوری عالمی برادری کے برعکس وہ اسرائیل کی تمام مجرمانہ سرگرمیوں کا سرپرست ہے اور عالمی معاملات میں اس کا اثر و رسوخ محض ویٹو کے ہتھوڑے کا مرہون منت ہے۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کی کارروائی میں شریک نہیں ہوگا۔ واحد دوسرا ملک جو انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی کارروائی میں شرکت سے گریز کرتا ہے، اسرائیل ہے۔ گویا انسانی حقوق کے جائزے میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ نے درحقیقت فلسطین میں اسرائیل کی درندگی کی حمایت پر جواب دہی سے بچنے کی خاطر کیا ہے۔ امریکہ کی اس اندھی اسرائیل نوازی کا نہایت حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اسکے نتیجے میں پاکستان ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے میں امریکہ کے کردار نے عرب ریاستوں کو اپنی سلامتی کیلئے جوہری صلاحیت کے حامل پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی راہ دکھائی جو اس واقعے سے چار ماہ پہلے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر پوری دنیا کو حیرت زدہ کرچکا تھا۔ سعودی عرب نے پاکستان سے دفاعی معاہدہ کرکے دیگر خلیجی ریاستوں کو بھی امریکہ کے بجائے پاکستان کو اپنا محافظ بنانے کا راستہ دکھا دیا ہے۔ پاکستان کیلئے اس کے نتیجے میں عالمی اثر ورسوخ میں اضافے اور زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے بے پناہ مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ یقینا ًخدا کی دَین ہے۔واقعات کا جو سلسلہ مودی کے پہلگام ڈرامے سے شروع ہوکر قطر پر اسرائیلی حملے اور اس میں عربوں کیلئے مایوس کن امریکی کردار تک پہنچا، اس میں پاکستان کی کسی حکمت عملی کا کوئی دخل نہیں لہٰذا پاکستانی قوم کو اللہ کی مہربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی خامیاں دور کرنے، اپنے داخلی معاملات درست کرنے، ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے، نظام انصاف کو معتبر بنانے، سیاسی انتشار افہام و تفہیم سے ختم کرنے، قومی وسائل کو عام آدمی کی مشکلات دور کرنے اور تعلیمی نظام کو معیاری اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے تاکہ عالمی حالات نے پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کے جو مواقع پیدا کردیے ہیں وہ ضائع نہ ہوں اور وہ خواب تعبیر پائیں جو اس ملک کو بنانے والوں نے دیکھے تھے۔

تازہ ترین