• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
درخت زمین کا زیور، وسائل کا منبع ہیں، شجرکاری صدقہ جاریہ سمجھ کر کریں اور ملک کو سرسبز و شاداب بنائیں
درخت زمین کا زیور، وسائل کا منبع ہیں، شجرکاری صدقہ جاریہ سمجھ کر کریں اور ملک کو سرسبز و شاداب بنائیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا فرمایا اور ساتھ ہی بےشمار نعمتوں سے بھی نوازا۔ اِن ہی عظیم نعمتوں میں سے ایک ’’درخت‘‘ ہیں۔ جس طرح ایک عورت کا بناؤ سنگھار زیورات کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، اِسی طرح درخت بھی گویا ہماری ماں دھرتی کا زیور ہیں، جو اس کی خُوب صُورتی میں اضافہ کرتے، اِسےدل کش وحسین بناتے ہیں۔

یاد رہے، درختوں کی زمین پر موجودگی کے سبب ہی کرۂ ارض کو ’’گرین پلینیٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ درختوں کے بغیر زمین پر زندگی ناممکن ہے اور یہ کہنا بھی بےجا نہ ہوگا کہ درخت نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات، حشرات اور چرند پرند کے بھی حقیقی محسن ہیں، کیوں کہ یہ ہمیں پھل، پھول اور سائے سمیت زندگی کے دیگر ذرایع فراہم کرتے ہیں۔ 

درختوں کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بڑادرخت تقریباً پینتیس انسانوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے، لیکن خُود غرض انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کی خاطر زمین سےاپنے اِن محسنوں کا صفایا کرنے کے درپے ہے۔ پروین شاکر مرحومہ نے اپنے ایک شعر میں اس دردناک کیفیت کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ؎ کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے…چڑیوں کو بہت پیار تھا، اُس بوڑھے شجر سے۔ ایک درخت پر کتنے ہی پرندوں کے آشیانے ہوتے ہیں اور جب اُسے بے دردی سے کاٹ دیا جاتا ہے، تونہ جانے کتنے طیور بےگھر و بے در ہوجاتے ہیں۔

ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق، اگر ایک مُلک کا تقریباً بیس فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہو، تو تب ہی اُس کا درجۂ حرارت معتدل ہوگا، جب کہ بدقسمتی سے پاکستان کا تین فی صد سے بھی کم رقبہ جنگلات پر مشتمل ہےاور اِسی وجہ سے مُلک کے گرم علاقوں میں جُون اور جولائی کے مہینوں میں گرمی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کہ اس دوران درجۂ حرارت تقریباً 50ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ 

ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں جنگلات کی یہی شرح برقرار رہی، تو آئندہ دس برسوں میں ہمارے مُلک کے گرم علاقے رہائش کے قابل نہیں رہیں گے۔ جب کہ مُلک میں روانہ سرِعام درختوں کا صفایا بھی اب عام سی بات ہے، جس پرحکومت اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات سے بچاؤ کے لیےحکومت کو درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ہی ان کی افادیت سے متعلق آگہی مُہم کا آغاز کرنا چاہیے۔

نیز، اگر ہم موجودہ اور آئندہ نسلوں کو قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے بچانا چاہتے ہیں، تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے ہوں گے۔ آج اگر پاکستان کا ہر ایک شہری ایک پودا بھی لگائے، تو ہمارے مُلک میں تقریباً پچیس کروڑ نئے درختوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اُس (کے پھل، پتّوں یا کسی بھی حصّے) سے کوئی انسان یا جانور کھالیتا ہے، تو یہ اس کےلیےصدقہ شمار ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث6012)

درختوں کو صدقۂ جاریہ سمجھ کر لگانا چاہیے اور ہمیں آج ہی سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنےحصّے کا ایک پودا ضرور لگائے گا۔ واضح رہے، پودے لگانے کا بہترین وقت بہار کا موسم ہوتا ہے، کیوں کہ اُس وقت زمین گرم ہوتی ہے اور پودے کی جڑوں کو بڑھنے کے لیے خاصا وقت مل جاتا ہے۔ نیز، یہ پودے کی نئی شاخیں اور پتّے نکالنے کا بھی بہترین وقت ہوتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، خزاں کا موسم بھی درخت لگانے کے لیے موزوں رہتا ہے، کیوں کہ اس موسم میں درخت کی جڑیں، مٹی میں اچھی طرح پیوست ہوجاتی ہیں، جو موسمِ سرما میں مزید مضبوط ہوتی ہیں۔ ویسے ہمیں زیادہ تر نیم، پیپل، شیشم، برگد اور شہتوت کے پودے لگانے چاہئیں۔ 

ایک اور بات، پاکستانی قوم، ہرسال یومِ آزادی کے موقعے پر کروڑوں روپے قومی پرچم، جھنڈیوں اور دیگر آرائشی سامان کی خریداری پر خرچ کر دیتی ہے، جو ایک قسم کی فضول خرچی ہے، جب کہ بعدازاں، اِن ہی جھنڈوں، جھنڈیوں کی جابجا توہین و بے حرمتی بھی دیکھی جاتی ہے کہ 14 اگست کے بعد وہی قومی پرچم اور جھنڈیاں گلی محلوں میں بکھرے پڑےہوتے ہیں، پیروں تلےروندے جارہے ہوتے ہیں اور کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ 

تو اگر ہم اس نمود ونمائش کے بجائے ایک ایک پودا لگادیں، تو یہ درحقیقت وطن سے سچّی محبت کا اظہار ہوگا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارا مُلک سرسبزوشاداب ہوگا بلکہ گرمی کی شدت میں بھی خاصی کمی آجائے گی۔ نیز، آئندہ نسلوں کا مستقبل سنور جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔