خوش فہمی اور غلط فہمیوں میں مبتلا کچھ نامرادوں کا ٹولہ گرما گرم بحث میں اُلجھا ہوا تھا ۔ آپ لفظ نامراد کا مطلب تو سمجھتے ہیں نا ؟ آپ کسی سے اُمیدیں لگا بیٹھتے ہیں ۔ آپ کی اُمیدیں پوری نہیں ہوتیں ۔ آپ نامراد کہلوانے میں آتے ہیں ۔ سوچ سمجھ کر کسی سے اُمیدیں باندھا کریں ۔ ورنہ پشیمانی اور شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔
میں تماشائی، تماشوں کا متوالا، انہماک سے نامرادوں کی گرما گرم بحث سن رہا تھا اور جسم میں حرارت محسوس کررہا تھا ۔اس قدر گرما گرم گفتگو سنتے ہوئے آپ سردی محسوس نہیں کرتے ۔
بحث اس بات پر نہیں ہورہی تھی کہ سقراط کو سچ بولنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پی لینا چاہئے تھا؟ یا پھر تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھ کر کال کوٹھڑی سے بھاگ جانا چاہیے تھا ؟ کال کوٹھٹری سے بھاگ جانے پر زہر کا پیالہ پی کر تاریخ کے صفحوں میں ہمیشہ کے لیے امر بن جانے کی سقراط کی دلیل پر بحث نہیں ہورہی تھی۔ اور نہ تو افلاطون اور ارسطو کی فلسفیانہ باتوں پر بحث ہورہی تھی ۔ بحث اس بات پر ہورہی تھی کہ ہم جب کسی کو ملازم رکھ کر کام دھندے سے لگاتے ہیں ، تب ہم کارکن کی ناقص کارکردگی پر ملازم کو ملازمت سے نکالنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ یہی مفروضہ گرما گرم بحث کی بنیاد بنا ہوا تھا۔
ایک گنجے نامراد کی سوئی اسی ایک بات پر اٹکی ہوئی تھی۔ وہ میرا ہم عمر لگتا تھا اور بڈھا کھوسٹ تھا۔ لگاتار چیخنے چلانے کی وجہ سے اس کی آواز پھٹے ہوئے ڈھول کی آواز جیسی ہوگئی تھی۔ وہ کسی کی بات نہیں سن رہا تھا۔ صرف اپنی ہانکے جارہا تھا۔ ایک بھونپو کو آدمی سمجھ کر میں نے ملازمت میں رکھا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بھونپو آدمی نہیں ہے بلکہ چمگادڑ تھا۔ چمگادڑ خون چوستی ہے ۔ اسے ملازمت سے نکالنا میرا بنیادی حق ہے ۔ دنیا کی کوئی عدالت مجھے میرے بنیادی حق سے محروم نہیں کرسکتی۔
مجھے لگا کہ میرا ہم عمر بڈھا کھوسٹ انیس سو سینتالیس سال سے یہی بات دہرائے چلا جارہا تھا۔ آنے والی کئی صدیوں تک وہ یہی بات جلسے جلوسوں میں بھی کرتا رہے گا ، مگر اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ایک دبلا پتلا نامراد بڑی دلچسپ کہانیاں اور قصے سنا رہا تھا ۔ اس نے کہا۔ ’’ نہ جانے کب اور کس صدی میں میرے پڑ دادا نے ایک شخص کو اپنی نمائندگی کرنے کے لیے ملازم رکھا تھا۔ اس کا نام استاد تھا۔ صدیاں گزر جانے کےباوجود استاد اب تک میرے پڑ دادا کی نمائندگی کررہا ہے۔ اُستاد ہر لحاظ سے اُستاد نکلا۔ صدیوں تک اُستاد میرے دادا کو خوب نچوڑتا رہا ۔ دادا کے دانا پانی پر اپنے نام کا ٹھپا لگا کر دادا کا دانا پانی خود کھاتا رہا ۔ دادا نے ایک لاکھ مرتبہ اُستاد کو ملازمت سے فارغ کرنا چاہا ، مگر اُستاد سے اپنی ناقص نمائندگی کی بنا پر چھٹکارا حاصل نہ کرسکا۔ صدیوں تک میرا دادا چیختا چلاتا رہا کہ میرا ملازم اُستاد میری، میرے حقوق کی نمائندگی کرنے کی بجائے خود خوب کھا پی کر دنیا بھر میں موج مستیاں کررہا ہے ۔ مجھے محتاج اور کنگلا کرچکا ہےاور خود میری نمائندگی کی آڑ میں عیاشیاں کررہا ہے ۔ دادا صدیوں سے اسی بات کا رونا رورہا ہے اور ہر صدی میں ناجانے کتنی مرتبہ مرکھپ رہا ہے ۔ اور اسمبلی میں اُستاد میرے دادا کی نمائندگی بڑی شان و شوکت سے کررہا ہے۔ میرا دادا نامرادی کی جیتی جاگتی علامت بن چکا ہے۔ میں اپنے دادا کو ان کا بنیادی حق دلوانا چاہتا ہوں ۔ وہ اگر کسی کو ملازم رکھ سکتے ہیں، تو پھر اس ملازم کو نااہلی کی وجہ سے فارغ کرنے کا بنیادی حق بھی رکھتے ہیں۔
کچھ نامراد اس بات پر بحث کررہے تھے کہ ہم جن ملازموں کو اپنی نمائندگی کا حق دیتے ہیں وہ ساٹھ برس کے ہوجانے کے بعد ملازمت سے ریٹائر کیوں نہیں ہوتے ، سبکدوش کیوں نہیں ہوتے ۔ خوب عیاشیاں ، من مستیاں اور کھانے پینے کے بعد فارغ الدنیا کیوں نہیں ہوتے؟ گوشہ نشین کیوں نہیں ہوتے؟ صدیوں سے نام بدل کر ، پہچان بدل کر، حلیہ بدل کر ہمارے سر پر کیوں سوار رہتے ہیں؟ اس بات پر منجھے ہوئے نامراد اپنا سر پیٹ لیتے تھے اور چیخ چیخ کر کہتے تھے :ہر دور میں وہ ہمارے سر پر اس لیے سوار رہتے ہیں کہ ہر دفعہ ہم ان کو اپنا ملازم چنتے ہیں۔ ان پر خواہ مخواہ اعتبار کرتے اور ان کو اپنا نمائندہ بناتے ہیں۔
زیادہ منجھے ہوئے نامراد پھٹ پڑتے تھے۔ وہ گریبان چاک کرکے کہتے تھے ، ہمارے منتخب کردہ نمائندے ہمارے لیے ہماری سزا بن چکے ہیں۔ نابکار ملازم ہماری اپنی غلطیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیں اپنی خطا کی سزا مل رہی ہے ۔
نامرادوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ وہ عالمی عدالتوں سے التماس کرینگے کہ ان کو اپنا ووٹ واپس لیکر اپنے نا اہل نمائندوں کو گھر بھیجنے کا حق ملنا چاہئے ۔ نامرادوں نے سوال اُٹھایا کہ جب ایک کلرک ملازمت میں آنے کے بعد ایک روز ملازمت سے ریٹائر ہوتا ہے ، عین اُسی وقت ہمارے چنے ہوئے ہمارے نمائندہ ریٹائر کیوں نہیں ہوتے؟ وہ لنگڑے، لولے، اپاہج بن جانے کے باوجود مرتے دم تک ہماری نمائندگی کرنے سے باز کیوں نہیں آتے۔ باقی باتیں اگلے منگل کے روز ہوں گی۔