امریکی فضائیہ کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ’سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے F-47‘ کی پیداوار شروع ہو چکی ہے اور اس کی پہلی پرواز 2028ء تک متوقع ہے۔
یہ اعلان چین کی طرف سے حالیہ فوجی پریڈ میں اپنی نئی جنگی مشینری کی نمائش کے 3 ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والے’ایئر، اسپیس اینڈ سائبر کانفرنس‘ کے دوران امریکی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف جنرل ڈیوڈ ایلون نے کہا کہ بوئنگ کمپنی نے F-47 کے پہلے یونٹ کی تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ طیارہ ’نیکسٹ جنریشن ایئر ڈومیننس‘ (NGAD) پروگرام کے تحت F-22 کی جگہ لے گا۔
جنرل ڈیوڈ ایلون نے بتایا کہ ہمیں تیزی سے آگے بڑھنا ہے، ٹیم کا ہدف ہے کہ 2028ء تک یہ طیارہ فضا میں ہو۔ پچھلے کئی برسوں کی ریسرچ، سیکڑوں ٹیسٹنگ گھنٹے اور ہزاروں انسانوں کی محنت کے بعد ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف چند ماہ قبل ہونے والے اعلان کے بعد ہی بوئنگ نے پہلا یونٹ بنانا شروع کر دیا ہے، ہم تیار ہیں اور ہمیں تیز رفتاری سے کام جاری رکھنا ہوگا۔
یاد رہے کہ مارچ 2025ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ بوئنگ کو NGAD کے تحت چھٹی نسل کے لڑاکا طیارے کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
امریکی صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ F-47 کے تجرباتی ماڈلز 5 برس سے خفیہ طور پر اُڑائے جا رہے تھے اور اس کی پہلی پرواز سن 2019ء میں ہوئی۔
امریکی فضائیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ F-47 کی پہلی پرواز صدر ٹرمپ کے موجودہ دورِ صدارت کے اختتام سے قبل یعنی جنوری 2029ء سے پہلے ہو جائے گی۔
ماہرین کے مطابق چھٹی نسل کے لڑاکا طیارے میں سپر سونیک تیز رفتاری، جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ہتھیار اور ڈرون کے ساتھ کوآرڈی نیٹ کرنے کی صلاحیت شامل ہو گی۔
اس کے علاوہ، یہ طیارہ نا صرف دشمن کی فضائی طاقت کو چیلنج کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نیٹ ورک سینٹرڈ وار فیئر کے ذریعے دیگر پلیٹ فارمز سے بھی روابط رکھے گا۔
چین کی طرف سے حالیہ فوجی پریڈ میں جنگی طیاروں اور ہائیپر سونک میزائلوں کی نمائش کے بعد امریکی اعلان کو ایک حکمتِ عملی پیغام کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں فضائی بالادستی کی دوڑ میں یہ تازہ ترین اقدام ایک بڑا قدم ہے۔
امریکی فضائیہ نے F-47 کی تیاری کے لیے فنڈز کی منظوری پہلے ہی دے رکھی ہے اور توقع ہے کہ آئندہ مالی سال میں اس منصوبے پر مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔
ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ NGAD پروگرام صرف ایک طیارے تک محدود نہیں بلکہ اس میں جدید ہتھیار، سینسر اور ڈرون سسٹمز کی ایک مکینزم شامل ہیں جس سے امریکا اپنی فضائی برتری کو 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے تک برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔