شر سے خیر برآمدہونا اسی کو کہتے ہیں۔ چاربڑے ممالک نے فلسطین کو علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا ہے جن میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال اور فرانس شامل ہیں۔ شنید ہے کہ کچھ دنوں میں مزید ممالک بھی لسٹ میں شامل ہو جائینگے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ملک اگر اپنے آپ کو کسی دوسرے ملک سے تسلیم کروالے تو اُسے اِس کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ سفارتخانے کھل جاتے ہیں۔ تجارت شروع ہوجاتی ہے، ٹیکس میں رعایت اور درآمد برآمد کی راہیں اوپن ہوجاتی ہیں۔ جس ملک کو تسلیم کیا جاتا ہے اسکی قانونی حیثیت مضبوط ہوجاتی ہے اور سیاسی تعلقات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے 144 ممالک پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں لیکن اِن چار بڑے ممالک کا تسلیم کرنا بہت بڑا اشارہ ہے۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ اقوام متحدہ نے ابھی تک فلسطین کو الگ ریاست تسلیم نہیں کیاہوا کیونکہ یہ اجازت سلامتی کونسل دیتی ہے جہاں ویٹو پاور کے حامل پانچ ممالک موجود ہیں جن میں چائنا، روس، فرانس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ ان میں سے چار ممالک چائنا، روس، برطانیہ اور فرانس تو فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تو گویا ایک ویٹو پاور امریکہ رہ جائیگا اور پوری ضد میں رہیگا کہ فلسطین کو تسلیم نہیں کرنا۔ اسے کہتے ہیں عالمی تنہائی۔ دنیا بدل رہی ہے، بھاری پلڑے نیچے کو جھک رہے ہیں۔ ضدی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی دو فٹ زمین کے حصو ل کیلئے ساری زندگی مقدمے لڑتے ہیں اور سینکڑوں ایکڑ زمین مقدمے بازی میں جھونک دیتے ہیں۔ چھوٹا بدمعاش بڑے بدمعاش کے بل بوتے پر اکڑ دکھاتاہے لیکن جس دن بڑے بدمعاش کی لات بم کو پڑ گئی، چھوٹا بھی گیا۔
٭٭٭٭
چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو نے بڑے ٹیکس ناہندگان کی صحیح معلومات دینے والوں کیلئے انعامی رقم پندرہ لاکھ سے بڑھا کر پندرہ کروڑ کرنیکی تجویز دی ہے۔یہ بہت اچھا اقدام ہوگا لیکن دھیان رہے ایسا نہ ہو جس کو پندرہ کروڑ ملیں وہ خود بھی بڑا ٹیکس نادہندہ بن جائے اور پھر اُسکا سالا اُسکی مخبری کرکے پندرہ کروڑ لے اُڑے۔ ایف بی آر میں اس وقت راشد لنگڑیال جیسے شانداراور باکمال چیئرمین موجود ہیں جنکی صلاحیتوں سے مخالفین بھی واقف ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ٹیکس نادہندگان صرف عالی شان گھروں میں ہی نہیں رہتے، یہاں تو مچھلی، سری پائے اور نان چنے بیچنے والے بھی اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ لاہور کی اکثر تجارتی مارکیٹس میں تو دکان کے باہر کا تھڑا بھی ایک کروڑ روپے ماہانہ کرائے پر چڑھا ہوا ہے۔ یہ لوگ سمجھدار ہیں، پرانا گھر نہیں چھوڑتے اور بظاہر عام سی زندگی گزارتے ہیں۔ انکے اکاؤنٹ بینک میں نہیں گھڑے میں ہوتے ہیں۔ اِنکو بھی پکڑیں۔ کچھ بڑے لوگوں کو میں بھی جانتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ کیا مجھے آدھی رقم انعام میں مل سکتی ہے؟
٭٭٭٭
مس امریکہ کا ٹائٹل جیتنے والی خوبرو ماڈل ’کیسی ڈونیگن‘ سوشل میڈیا پر مسلسل ٹرولنگ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ انکا مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ انکا میک اپ ٹھیک نہیں تھا۔ یقیناً ایسی تنقید مرد نہیں کر سکتے۔ مردوں کو تو میک اپ کی الف بے بلکہ نون میم کا بھی پتانہیں ہوتا بلکہ اُنہیں تو چار چیزوں کے نام آتے ہیں، سرخی، پاؤڈر، نیل پالش اور سرمہ۔ ہمیں کیا پتا کہ پرائمر، فاؤنڈیشن، کنسیلر، بلش، برونرز، ہائی لائٹر، لپ لائنر، بیس وغیرہ کیا ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ سارے نام میں نے میک اپ آرٹسٹ سے پوچھ کر لکھے ہیں۔مس امریکہ کے میک اپ پرخواتین ہی نقاد ہیں۔ خواتین عموماً دوچیزیں برداشت نہیں کرتیں، اپنے جیسا سوٹ اور اپنے سے بہتر میک اپ۔ ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ مقابلہ حُسن میں حُسن ہی سب سے بڑا معیار ہوتا ہے یعنی بظاہر بہت خوبصورت نظر آنا چاہئے۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ حسن کا معیار ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کو خوبصورت، امیر، سلم اسمارٹ، اور پڑھی لکھی لڑکیاں بالکل پسند نہیں آتیں۔ وجہ پوچھی تو بولے’اُنکو بھی میں پسند نہیں آتا‘۔
٭٭٭٭
پنجاب میں چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے چوبیس کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ گویا ہر گھنٹے بعد ایک مچھر اپنا کام دکھا رہا ہے۔ سیلاب کے بعد ایسی صورتحال متوقع تھی۔ کئی علاقوں میں تو مختلف بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ ڈینگی جب پہلی دفعہ تشریف لایا تھا تو شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے انتہائی موثر اقدامات کیے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ مہم دم توڑنے لگی اور اب عملی طور پر یہ سلسلہ زیادہ متحرک نظر نہیں آتا۔ کورونا کی ہولناکی نے ڈینگی کو دو ٹکے کا کردیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو ڈینگی سے بھی زیادہ خطرناک کر دیا ہے، ہربندہ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہاہے۔ڈینگی بھی پریشان ہے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے جاؤں اور خود کاٹا جاؤں۔ڈینگی چونکہ صاف پانی میں پرورش پاتاہے لہٰذا اسکا واحد تدارک پانی کو جمع نہ ہونے دینا ہے۔لیکن کیا سروس اسٹیشن کا پانی جمع ہونے سے روکا جاسکتاہے؟ جتناپانی ڈینگی کے لاروے کو پرورش پانے کیلئے درکار ہے اتنا تو فٹ پاتھ ہوٹلوں پر گاہک گلاس دھوتےہوئے پر فرش پر پھینک دیتے ہیں۔
٭٭٭٭
ایک بیوی نے مرتے وقت شوہر سے کہا کہ اب میں وفات پارہی ہوں تو اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ تمہاری سونے کی گھڑی میں نے ہی غائب کی تھی، تمہاری بہن کا رشتہ بھی میں نے ہی تڑوایا تھا شوہرآہ بھر کر بولا’میں بھی اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ تمہیں زہر میں نے ہی دیا ہے‘۔