یہ شہر اب کھنڈر ہوتا جا رہا ہے۔ حیران ہوں پھر بھی اسے کبھی منی پاکستان تو کبھی کمرشل اور ’’پورٹ سٹی‘‘ کہا جاتا ہے اور حال یہ ہے کہ نہ سڑکیں گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کے قابل ہیں نہ فٹ پاتھ پیدل چلنے کے قابل۔ ایسے میں ہونیوالے ٹریفک حادثات کسی ’’قتل‘‘ سے کم نہیں۔ یا تو اس شہر کو بہتر بنانے کا پروجیکٹ شروع ہی نہیں ہوتا یا مکمل ہونے میں اتنا وقت لے لیتا ہے کہ اس کے ثمرات شہریوں کو نصیب ہی نہیں ہوتے۔ کبھی ہمارے حکمران چھوٹی گاڑیوں، رکشوں، بسوں میں سفر کریں تو اندازہ ہو کہ ایک مڈل کلاس کس طرح اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب بارش کا موسم آتا تھا تو چھٹی ہو نہ ہو سب پکنک پر نکل پڑتے تھے آج بادل زیادہ گہرے ہو جائیں تو سرکاری اعلان ہوتا ہے پلیز گھروں سے نہ نکلیں موسم خراب ہے جو گھروں میں رہتے ہیں وہاں بجلی نہیں آتی۔ بارش تیز ہو جائے تو گلی محلے، سمندر کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مگر آج میں بات صرف کراچی کی سڑکوں کی کروں گا۔ برسوں پہلے مشہور ٹی وی سیریل ففٹی ففٹی میں شعر سنا تھا، کیا وہ ٹرک گزر گئے۔ ہاں وہ ٹرک گزر گئے۔ کیا وہ سڑک ہوئی تمام۔ ہاں وہ سڑک ہوئی تمام۔
اب آپ کو زیادہ نہیں صرف اس شہر کی چند اہم سڑکوں کا حال سنا دیتا ہوں جہاں سے روزانہ لاکھوں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، بسیں گزرتی ہیں۔ یقین جانیے اگر صرف اس شہر کی سڑکیں ٹھیک ہو جائیں، صاف ستھری ٹرانسپورٹ مہیا ہو جائے، گٹر ابلنا بند ہو جائیں، نلکوں میں پانی آنا شروع ہو جائے، گھنٹوں بجلی نہ جائے تو یہ شہر بے مہر پانچ کروڑ لوگوں کو بھی برداشت کر سکتا ہے۔ آپ بھی حیران ہونگے کہ آج سے کوئی 18 سال پہلے یعنی 2007 ءمیں، میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس وقت ٹیپو سلطان روڈ نزد شاہراہ فیصل پر غالباً پانی کی پائپ لائن ڈالنی تھی اسلئے سڑک کھودنے کا کام جا ری تھا۔ میں 2012ءکو واپس کراچی آ گیا مگر اس سڑک کا حال وہی تھا۔ کچھ عرصے بعد سڑک ٹھیک ہوئی اور پھر توڑ دی گئی کہ پائپ لائن غلط پڑ گئی تھی یا شاید کوئی دوسرا فالٹ نکال لیا گیا تھا۔ اب بہرحال وہاں سڑک تو بن گئی ہے مگر پورے رہائشی علاقے کو کمرشل بنا کر وہاں سے گزرنا ہی محال بنا دیا گیا ہے۔
آئیں اب آپ کو ایک اور اہم سڑک پر لیے چلتا ہوں۔ جو شہرکیلئے درد سر بنی ہوئی ہے اور وہ ہے جیل روڈ سے صفورہ گوٹھ تک۔ آج سے کوئی پانچ سال پہلے یہاں اربوں روپے سے ایک شاندار سڑک تعمیر کی گئی حقیقت میں وہ ایک مثالی سڑک تھی گو کہ اس سڑک کو بننے میں کوئی سال ڈیڑھ سال لگا ہو گا مگر خدا خدا کر کے بنی تو یقین جانیں ہم اپنے بچوں کو صرف اسے دکھانے لے جاتے تھے۔ رات کو اس کی رونق ہی الگ ہوتی تھی۔ حیران ہوں کہ آپ اتنی شاندار سڑک بنانے کے بعد پروجیکٹ، وفاق کا ہو یا صوبے کا اسے دوبارہ کیسے توڑ سکتے ہیں اور وہ بھی ایک انتہائی ناقص BRT پروجیکٹ کی خاطر۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم چند سال ہی وہاں کے شہریوں کو ایک صاف اور شفاف سڑک کا مزہ لے لینے دیتے ، یہ وہی روڈ ہے جسے یونیورسٹی روڈ کہا جاتا ہے۔ جہاں اور بھی کئی جامعات اوراہم دفاتر ہیں مگر پچھلے چند سال سے وہاں کے شہریوں کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔ حیرانی ہے تو اس بات کی کہ اگر پروجیکٹ میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے تو کم از کم لنک روڈز کو ہی بہتر بنادیتے یہ سڑک کئی سڑکوں کو لنک کرتی ہے۔ جو لوگ روز سفر کرتے ہیں وہ برسوں سے انگریزی والا ’’سفر‘‘ کر رہے ہیں۔ آئیں اب آپ کو کریم آباد لے چلتا ہوں چند برس پہلے ایک غیر ضروری انڈر پاس بننا شروع ہوا اور وہ بھی ایک ایسی جگہ پر جہاں برسوں پہلے خاص طور پر خواتین کیلئے مینا بازار کے نام پر شاپنگ پلازہ بنا تھا۔ حیران ہوں اس بات پر کہ گرومندر سے لے کر سپر ہائی وے تک ایک ہی سڑک پر فلائی اوور بھی ہیں اور انڈر پاس بھی مگر مجال ہے کوئی ایک بھی اچھی کوالٹی کا بنا ہو اور المیہ یہ ہے کہ آج بھی وہاں سے لیاقت آباد تک اور فیڈرل بی ایریا سے واٹر پمپ تک ٹریفک جام رہتا ہے۔
نا جانے کب لٹے گا شہر اپنا
سنا ہے اب کے تیاری بہت ہے
اب آ جائیں ایم اے جناح روڈ پر۔ اور کچھ نہیں تو مزار قائد کے اردگرد انڈر پاس اور سڑکوں کا حال خود ہی آ کر دیکھ لیں۔ قائد اعظم تو دیکھ ہی رہے ہو نگے کیونکہ ان کے پاس تو شاذو نادر ہی صدر یا وزیر اعظم آتے ہیں۔ یاد نہیں پڑتا آخری غیر ملکی سربراہ یہاں کون آیا تھا۔ یہ ان دواہم ترین سڑکوں میں سے ہے جو شہر کو جوڑتی ہیں اگر ایم اے جناح روڈ یا شاہراہ فیصل میں سے کوئی ایک بھی بند ہو جائے تو شہر بےحال ہو جاتا ہے یہاں آپ کو کئی بےڈھنگے انڈر پاس اور دیگر پروجیکٹ نظر آئیں گے جن کو بنانے میں کئی سال لگ گئے۔ یہاں سے آپ گارڈن یا سائٹ کی طرف مڑ جائیں تو وہاں بھی برسوں سے ٹوٹی سڑکیں ملیں گی جسکی وجہ سے ہر وقت ہی ٹریفک جام رہتا ہے اور اس پرانگنت تجاوزات۔ہماری پلاننگ کا سب سے بڑا مسئلہ پروجیکٹ کا وقت پر مکمل نہ ہونا اور دوسرا انتہائی نا اہل افسران کی فوجِ ظفر موج ہے۔ جب آپ میرٹ کا کلچر ختم کردینگے تو وہی ہو گا جو اس شہر اور صوبے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور معذرت کے ساتھ جو ہمارے کچھ سیاسی دوست کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کی بات کر رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ اس شہر کے کئی بڑے پروجیکٹ وفاق ہی بنا رہا ہے اور بن نہیں پا رہے۔ یقین جانیں اگر کراچی ماس ٹرانزٹ، سیف سٹی، کے 4، کراچی سرکلر ریلوے جیسے پروجیکٹ ہی وقت پر مکمل ہو جاتے تو نہ صرف اربوں روپے بچ جاتے بلکہ کئی مسائل حل ہو جاتے۔ کئی اچھے پروجیکٹ جیسا کہ لیاری ایکسپریس وے، ناردرن پائی پاس، ملیر ایکسپریس وے اور حال ہی میں شروع ہونیوالی شاہراہ بھٹو بڑے پروجیکٹ نہیں ہیں مگر ان گنت سوالات ہیں اہلیت پر۔
اب اس جام صادق پل کو ہی لے لیں کتنی بار بنا اور کتنی بار اس کی مرمت ہوئی اور اب پھر بن رہا ہے۔ امید ہے اس بار اچھا بنے گا مگر جس نے اس کو پہلی بار بنایا اور جن افسران نے بنایا ان سے کوئی حساب کتاب، چلو وزیر اعلیٰ تو اب دنیا میں نہیں اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ بھائی اچھی بسوں، رکشوں اور ٹیکسیوں سے پہلے سڑکیں تو بنا لیں۔
افسوس ہوتا ہے کہ ایک انتہائی شاندار اور زندگی سے بھر پور شہر کو جس کی سڑکیں بھی کشادہ تھیں اور لوگوں کے دل بھی ،ہم کھنڈر بناتے جا رہے ہیں۔ آپ اورنگی ٹائون سے کورنگی چلے جائیں۔ نیو کراچی سے صدر آ جائیں لگ پتا جائے گا۔ یہ شہر پھر بھی جاگتا ہے۔ بس سمندر کا مزہ آپ بارش میں گھر بیٹھے لے سکتے ہیں۔ نلکوں میں پانی نہیں آیا تو کیا گھروں میں تو آ گیا۔ ویسے بھی ماشا اللہ ہم نے سی ویو پر SEA کو دور دھکیل دیا ہے۔ بس آپ ویو کر سکتے ہیں۔ یہ کراچی ہے۔