پاکستان کی بہت سی بدقسمتیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے 78سال میں اپنے قدرتی وسائل بھی پوری طرح استعمال نہیں کئے ہیں اور نہ ہی انسانی وسائل۔ ہمارے کارخانے بھی گنجائش سے کم چلتے ہیں نوجوانوں کی توانائی بھی پوری طرح مملکت کے مفاد میں صرف نہیں ہوتی۔ بزرگوں کی دانائی بھی معاشرے کی ترقی میں کم بنیاد بنتی ہے۔ اب جب عالمی یوم سیاحت 27ستمبر کو آ رہا ہے تو میرے اس خیال کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ سیاحت بھی ایک ایسا شعبہ ہے جسکے امکانات تو دال بندین سے کرتار پور تک بے کراں ہیں لیکن یہاں بھیUnder utilisation کی شدت ہے۔ آپ گوگل پر چلے جائیں یا AI پر وہ پاکستان کی سیاحتی اہمیت پر فوراً سینکڑوں ہزاروں الفاظ کی بارش کر دیں گے ہمالیہ قراقرم سلسلے کی 14چوٹیاں کوہ ِسلیمان کا سلسلہ برف پوش چوٹیاں، گلگت بلتستان آزاد جموں کشمیر کی حسین وادیاں سرسبز گھاٹیاں گنگناتے دریا اور گزشتہ عسکری علمی ثقافتی صدیاں جو میدانی علاقوں میں وادیوں میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی ہیں۔ مغل دور کے مقبروں اور باغات میں محو خواب دکھائی دیتی ہیں۔ موہنجودڑو پانچ ہزار سال پہلےکی منظم گلیاں غسل خانے رہائش گاہیںلئےایک نظر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ 8ہزار سال مہر گڑھ میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں دس ہزار سال پہلے کے آثار بھی ہیں۔ اسلام آباد کے آس پاس بدھ تہذیب کے آثار دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔کئی کئی ہزار سال بوڑھے درخت بھی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔برٹش ٹورسٹ اتھارٹی برطانیہ کے مختلف شہروں میں موجود قلعوں کو سیاحوں کیلئے کشش کا باعث قرار دیتے ہیں ہمارے بادشاہوں راجوں کے قلعے بھی اتنے ہی محفوظ اور معیاری طرز تعمیر کے نمونے ہیں ان کے مطبخ، اسلحہ خانے بھی تاریخ کے زریں اوراق ہیں۔ اب کے یہ عالمی یوم سیاحت ایسے دنوں میں آرہا ہے جب ہمارے بیشتر سیاحتی مقامات موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے ہیں حکمرانوں سے گلے شکوے کا تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کیونکہ وہ کسی قسم کی تبدیلیوں سے ماورا ہیں۔ انکا فہم اور شعور ابھی اٹھارویں صدی میں ہے وہ آج کے چیلنجوں کا سامنا کرنا لاحاصل سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے ایشیا کے ایسے مقام پر وجود عطا کیا ہے جہاں وہ ایک طرف مشرق وسطیٰ اور خلیج کیلئےدروازہ ہے اور دوسری طرف یورپ اور مشرق وسطیٰ کیلئے جنوبی ایشیا مشرق بعید کے در کھولتا ہے ۔ہمارے پڑوس میں چین ہے، افغانستان، انڈیا ایران ہے جہاں صرف ماضی کی عظمتیں ہی نہیں ہیں۔ جدید ادوار اور علوم کی درسگاہیں بھی ہیں۔ نئی تہذیبیں انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں بہت ہوئی ہیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس بار سندھ 2010ء اور 2022ء کی طرح سیلاب سے شدید متاثر نہیں ہوا ہے۔ ہمارے ہم وطن خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں رہنے والے چٹانوں کی طرح استقامت کے مظہر ہیں۔ بہت باہمت حوصلہ مند اپنے طور پر وہ اپنی تباہ شدہ رہائش گاہیں از سر نو تعمیر کر چکے ہیں۔ گلگت بلتستان میں زندگی کی رونقیں رفتہ رفتہ لوٹ رہی ہیں۔ خیبر پختون خوامیں سیلاب کے ساتھ شدت پسندی، دہشت گردی بھی سیاحتی مقامات کا راستہ روک دیتی ہے ۔سیاح ملکی ہوں یا غیر ملکی انکو سیکیورٹی کے تصور سے ڈرایا جاتا ہے۔ بھارت کی عسکری جارحیت کا مقابلہ ہم کر رہے ہیں۔ آبی جارحیت کے دندان شکن جواب کیلئے بھی اب کے بہت منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ لیکن بھارت سیاحتی جا رحیت کا بھی ارتکاب کرتا ہے۔ 1960ء کی دہائی سے ہی اس کی ٹورزم کارپوریشن نے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنے شہروں غاروں مندروں کی طرف راغب کیا۔ کسی غیر ملک سے کوئی خاندان بھارت کی سیاحت کیلئے آنا چاہتا تھا تو اسے اپنے ملک میں ہی بھارت کے سفارت خانے یا قونصل خانے سے پورے دنوں کی بکنگ مل جاتی تھی۔ ہمارے سفارت خانے اتنے متحرک اور پرجوش نہیں رہے بلکہ وہ خود بھی سیکیورٹی کے خطرات کہہ کر ایسے سیاحوں کی حوصلہ شکنی کرتے تھے ۔اس سیاحتی جارحیت کا جواب دینے کی بھی اشد ضرورت ہے ہمارے سفارت خانوں میں بھی ٹورزم اٹیچی رکھے جائیں۔ ہمارے پاس روحانی، مذہبی،تاریخی ،تفریحی سیاحت کے بہت امکانات ہیں۔ سیاحتی شعبے میں اتنی طاقت ہے کہ اگر ہم خلوص اور سنجیدگی سے اس شعبے کو فروغ دیں تو ہمارے قرضے بھی آسانی سے اتر سکتے ہیں۔ سندھ میں سردی زیادہ نہیں پڑتی۔ اسلئے یہاں سال کے اکثر مہینوں میں غیر ملکی اور ملکی سیاحوںکیلئے بہت کشش ہو سکتی ہے۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تحقیق کرنے والے لوگوں کیلئے بھی بہت مواقع ہیں۔ میں تفریح تحقیق عقیدت سے آگے بڑھ کر اپنے ہم وطنوں میں یگانگت اور یکجہتی کیلئے اندرون ملک سیاحت کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ اب ماشاءاللہ شاہراہیں زیادہ کھلی اور معیاری بن گئی ہیں۔ لوگ اپنے طور پر اپنی گاڑیوں سے سفر کر رہے ہیں۔ مختلف علاقوں صوبوں کے پاکستانیوں میں مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان جو دوریاں ہیں وہ اس طرح سے دور ہوتی ہیں۔ جس یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے وہ اندرون ملک سیاحت کیلئے آسانیاں پیدا کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ لکھتے لکھتے میرے ذہن میں آرہا ہے کہ جو لوگ نسلی لسانی بنیادوں پر نفرتیں پیدا کرتے ہیں نوجوانوں کو لاپتا کرتے ہیں سوشل میڈیا پر تعصبات پھیلاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ مختلف علاقوں کے پاکستانی نوجوان آپس میں ملیں۔ پہلے طلبہ و طالبات کے بین الصوبائی دورے ہوتے تھے۔ واپسی پر مضامین بھی لکھے جاتے تھے اب تو سوشل میڈیا جیسا طاقتور، متحرک فعال رابطہ میسر آگیا ہے۔ بعض نوجوان ہمت کر کے موٹر بائیسکل پر ملک کے خوبصورت مقامات دکھاتے ہیں۔ انکے جذبے کو سلام۔ وہ سکیورٹی کا گلہ نہیں کرتے۔ اکیلے اپنی قیمتی بائیک مہنگے کیمروں کیساتھ دور دراز علاقوں میں گشت کرتے ہیں۔ وہاں کا رہن سہن دکھاتے ہیں۔ ان علاقوں کے باشندے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز کی بدولت ہمیں سندھ ،بلوچستان ،شمالی علاقوں اور قبائلی شہروں سے گہری واقفیت بھی ہو جاتی ہے ۔یہیں میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی آئندہ نسلوں کے درمیان بھی قربت پیدا کرنے کیلئے اندرون ملک سیاحت ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ شہروں کے نوجوان سندھ کے تاریخی مقامات سے واقف نہیں ہیں۔ ڈاکوؤں کا مسئلہ پیدا کر کے انکو موہنجو داڑو، مکلی رنی کوٹ ،کیرتھر دیکھنے سے محروم کیا جاتا ہے۔ تھر بارش کے بعد جو گل و گلزار ہو جاتا ہے وہ بھی ہمارے اکثر شہری سندھ والوں نے نہیں دیکھا ہوگا ۔ہمیں ان کمپنیوں اور افراد کو بھی آفریں کہنا چاہئے جو ایک شہر کے اسکولوں، یونیورسٹیوں کے گروپ دوسرے شہروں اور صوبوں میں لے جاتے ہیں۔ اپنے عظیم ملک کے خوبصورت اثاثوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ محبتوں کا پیغام عام کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے جس حسین رسم کا آغاز کیا تھا اور جو باعث تقلید بنی۔ کتنے سفرنامے لکھے گئے۔ اب اسی روایت کو وی لاگرز آگے لے کر چل رہے ہیں۔ اپنے وطن کے دریا، نہریں، ڈیم، درگاہیں، درسگاہیں میلے، کھیت کھلیان دکھا رہے ہیں ۔
سرزمین شاد باد کشور حسین شاد باد