• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں غیر معمولی بارشوں اور پھر سیلاب کے پس پردہ عالمی موسمیاتی تبدیلی ایک اہم وجہ ہے۔ دیگر غالب عوامل میں مقامی جنگلات کا کٹائو، دریائوں کی ناقص منصوبہ بندی، آبادیوں کا بے ہنگم پھیلائو، بارشی پانیوں کا ضیاع، ازکارِ رفتہ نکاسی آب اور انفراسٹرکچر کا کمزور نظام بھی شامل ہیں۔ ان وجوہات میں اب ہمارے ’’دائمی مہربان‘‘ پڑوسی ملک بھارت کا خبث باطن بھی شامل ہو گیا ہے۔ جو کبھی غیرقانونی بندش اور کبھی بغیر نوٹس اطلاع کے پانیوں کو آزاد کر دیتا ہے اور یوں ہمارے مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے ان سے فرار ممکن نہیں، کیونکہ لاکھوں، کروڑوں برسوں سے یہ تبدیلیاں اس کرۂ ارض پر زیادہ شدت سے نمودار ہوتی رہی ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہر موسمیاتی اور جغرافیائی تبدیلی کے بعد اس زمین کے مناظر زیادہ خوبصورت، نباتات، حیوانات زیادہ بہتر ارتقائی شکل اختیار کر گئے اور قدرتی وسائل انسانی استعمال کیلئے زیادہ مؤثر اور دسترس میں آ گئے۔ یہ قادرِ مطلق کا کمال بھی ہے اور مخلوق پر مہربانی بھی، لہٰذا اب بھی ہمیں موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کو دَرپردہ نعمت (Blessing indisguise) سمجھتے ہوئے خوشگوار بہتری کی توقع ہے۔ البتہ انسانوں کی بے لگام اور ماحول کش تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں پر کڑی نظر کی ضرورت ہے جنکی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں اس کرۂ ارض کی مجموعی روایات کے برعکس بربادیوں کا سامان کر رہی ہیں اور یوں قوانین قدرت سے متصادم ہو گئی ہیں۔چنانچہ فوائدکے برعکس کرۂ ارض کےباسیوں کی اکثریت ماحولیاتی اور مالیاتی استحصال کا شکار ہو گئی ہے۔ مثبت موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل آہستہ آہستہ پکنے والی ہنڈیا کی طرح ہوتا ہے جسکا عرصہ ہزاروں سال تک محیط ہوتا ہے۔ لیکن انسان کے ہاتھوں جنگلات کا بے دریغ کٹائو، کاربن ایندھن سے ہوائوں، خلائوں کی کثافتیں، انڈسٹریل پیداوار سے خطرناک کیمیکل کا ماحول میں اخراج، قدرتی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ان سب عوامل کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کا عمل نہ صرف تیز تر ہو گیا ہے، بلکہ تبدیلی کے قدرتی اور خدائی اُصولوں سے انحراف کر گیا ہے۔ چنانچہ انسانی، حیوانی اور ارضیاتی بقاء کا مستقبل مخدوش ہو چکا ہے۔ نظامِ قدرت میں انسان کی ان بےجا دراندازیوںکے باوجود کئی ممالک نے موسم کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کر کے ان پر کسی حد تک قابو پا لیا ہے، مثلاً نیوزی لینڈ نے اپنے بے ترتیب اور سرکش دریائوں کے جال کو سول سٹرکچرز کی مدد سے ایک سلیقہ میں ڈھال کر زراعت اور حیوانی بقاء کیلئے مفید بنا دیا ہے۔ یورپی شہر روٹراڈیم کے منصوبہ سازوں نے شدید سیلابی طغیانیوں کو چھوٹے چھوٹے آبی ذخیروں کی شکل دے کر سودمند بنا دیا ہے۔ اسی طرح بنکاک اور چنائی جیسے شہروں کی اربن فلڈنگ کو پبلک پارکس اور زمینی سرائتوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور یوں بے ضرر بارشی پانیوں نے سیاحوں اور شہریوں کیلئے راحتوں کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ ہم بھی اپنے ہاں سیلابی پانیوں کو حسن انتظام سے نہ صرف قابو کر سکتے ہیں بلکہ زراعت اور توانائی کیلئے فوائد حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے ناراض پانیوں کی تکریم کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ ’’پانیوں کا بہائو، قیام اور پاکیزگیوں کی حفاظت‘‘۔ یہ ہے وہ اُصول جسکے ذریعے ہم نہ صرف سیلابوں کو بے خطر بنا سکتے ہیں، بلکہ حیات، صحت اور معیشت کیلئے بے انداز فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مدافعاتی طریقۂ کار (Resilience Plan) کے ذریعے مقامی صلاحیتوں کے استعمال سے سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کیا جائے نیز باقی ماندہ اثرات کو برداشت کر لیا جائے تو ہم سیلابوں کے منفی اثرات کو زائل کر سکتے ہیں۔

2010ء، 2022ء اور حالیہ سیلابی اثرات والے علاقوں کی تفصیلات کی خاکہ کشی (Maping) کی جائے تاکہ آئندہ سیلابی منصوبہ بندی میں استعمال ہو اور حفاظتی بندوبست ہو سکے۔ مثلاً شمالی علاقہ جات، گلگت، بلتستان، بونیر، شانگلہ میں بادلوں کے انشقاق (Cloud Burst) اور مستقبل میں لینڈسلائیڈنگ کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر جنگلات کی بحالی شروع کی جائے۔ اس سے درجہ حرارت میں کمی اور چٹانی استحکام (Land Stabilization) میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں بارشی پانی کے ہمراہ پتھروں اور بولڈرز کی روانیاں کم ہو جائیں گی اور یوں وادیوں اور دریائوں میں آبادیوں اور پانیوں کے راستے مسدود نہ ہونگے۔سیلابی تباہ کاریوںکے خدشات کم از کم رکھنےکیلئے برساتی اور دریائی پانیوں کو انسانی اور حیوانی آبادیوں سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ جہاں ضروری ہو، حفاظتی پشتوں، پختہ نالوں (Culverts)، کازویز، آبی دروازوں (Tidel Gates) اور آبی ذخیروں کو تعمیر کیا جائے۔ اس جامع منصوبہ بندی کیلئے باصلاحیت ماہرین کی ٹیموں کو تعینات کیا جائے۔ بغیر تکنیکی مسابقت کے من پسند مشاورتی اداروں کی ہنگامی تعیناتی سے احتراز کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ بعدازاں ایسی اہم منصوبہ بندی کو جزوی فروخت (Sublet) کر دیتے ہیں۔ اتنے اہم مقاصد کیلئے یہ طریقۂ کار ناپسندیدہ ہے۔ مجوزہ پلاننگ کے تحت ایسے مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں صوبوں کی باہمی مشاورت سے آبی ذخائر، ڈیمز تعمیر کئے جا سکیں اور آبِ رواں یعنی (Run of Rivers) کے اُصولوں کے تحت محض سیلابی پانی عارضی طور پر محفوظ ہو، تاکہ بوقت ضرورت تقسیم آب کے فارمولہ کے تحت اس محفوظ پانی کا استعمال ہو سکے۔ حال ہی میں سیکرٹری ہائوسنگ پنجاب نے مختلف شہروں میں تعمیراتی لیولز کیلئے ماہرین کی مدد سے ایک جامع حکمت عملی تیار کی ہے۔ جسکی منظوری اور عملدرآمد سے اربن فلڈنگ پر قابو پانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

حالیہ سیلاب میں صوبائی محکمہ جات اور پی ڈی ایم وغیرہ نے ماضی کے تجربات کی روشنی میں کافی بہتر خدمات سرانجام دی ہیں۔ بالخصوص ایسے مواقع پر متعدی امراض کے پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے، لیکن الحمدللہ اس سال انکا احتمال بھی کم ہے۔ اس کیلئے اکثر انتظامی اور صحت کے اداروں نے حفاظتی کاوشیں کیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ نورالامین مینگل کی قیادت میں صحت عامہ کی ٹیمیں ہزاروں متاثرین کو انکے کیمپوں میں مصفا پانی (Bottled Water) مسلسل سپلائی کر رہی ہیں جو قابل ستائش ہے، لیکن آئندہ کے مصائب سے بچنےکیلئے مستقل منصوبہ بندی بھی ازحد ضروری ہے۔ پانیوں کو گزرنےکیلئےراستہ نہ ملا تو آئندہ بھی ناراض ہو جائیں گے ؎

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

تازہ ترین