میرے دادا کے دو بیٹے عبدالستار، عبدالغفار اَور ایک بیٹی سعیدہ تھی۔ بڑے بیٹے نے انگلش میڈیم اسکول سے مڈل پاس کیا اور دو سال کی تربیت کے بعد وہ محکمہ مال میں منشی مقرر ہوئے۔ اُن کی تعیناتی لدھیانہ میں ہوئی۔ اُنہیں تحصیل دار کے ہمراہ دَوروں پہ جانا پڑتا تھا جسکے باعث اُنکا حلقۂ تعارف بڑھتا گیا اور ملازمت کا تجربہ بیش قیمت ہوتا گیا۔ اُنکی وجۂ شہرت اُنکی دیانت داری تھی۔اِس خاندان میں شادی اِس انداز سے کی جاتی تھی جس میں خیرخواہی کا جذبہ غالب رہتا۔ میری والدہ محترمہ فردوسی بیگم خاندان کی ایک شادی کا اکثر ذکر کیا کرتیں اور اُس کا پورا نقشہ کھینچتی تھیں۔ وہ کہتیں ’’خاندان کے ایک بزرگ کا انتقال ہو گیا۔ سوئم کے موقع پہ قرب و جوار سے عزیزواقارب اکھٹے ہوئے، تو خاندان کی ایک بیوہ ماں نے شرکائےمحفل سے درخواست کی کہ میرا یتیم بیٹا ہے جسے مَیں نے بڑی مشقت سے پالا ہے۔ وہ شادی کی عمر کو پہنچ گیا ہے اور اَب برسرِروزگار ہے۔ اُسے سرکاری ملازمت مل گئی ہے۔ میرے پاس شادی کے اخراجات نہیں، چنانچہ اِس شرعی فریضے کی ادائیگی کیلئے کسی دین دار اَور سگھڑ لڑکی کا انتخاب کرنے میں میری مدد کریں۔ ’’اُس محفل میں موجود مردوں نے خواتین کے مشورے سے اُمورِ خانہ داری میں ماہر اور سلیقہ شعار لڑکی کا انتخاب کیا اور نمازِ مغرب کے بعد نکاح کا اعلان کر دیا۔ اب دلہن اور دُولہا کے لباس کا مسئلہ درپیش ہوا۔ دولہا کی خالہ نے اپنا دوپٹہ نکالا اور دُولہا کے سر پہ صافے کے طور پہ باندھ دیا۔ دولہے کی امّاں نے اپنی شادی کا جوڑا نکالا اور دُلہن کو پہنا کر سادگی سے نکاح کے دو بول پڑھا دیے۔ مبلغ بتیس روپے حق مہر مقرر ہوا۔‘‘ اِس سادگی کے پس منظر میں ہمارے تایا عبدالستار کی شادی بڑے وقار سے اختری بیگم سے ہوئی۔ اُنہیں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیاں عطا کی تھیں۔ اُنکے ہاں سات بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ گھر کی فضا میں خداخوفی اور رَاست بازی کا عنصر غالب تھا۔ اِس لیے پوری اولاد میں اچھی صفات کا چلن عام ہوا، مگر عبدالسلام، عبدالحفیظ اور عبدالرشید نے اپنے خاندان اور پورے پاکستان کا نام روشن کیا اور دِیانت داری کا ایک قابلِ رشک معیار قائم کیا۔جناب عبدالسلام اور جناب عبدالحفیظ محکمۂ انہار میں ایسے عہدوں پہ تعینات رہے جہاں ہر ماہ ہزاروں اور لاکھوں کمائے جا سکتے تھے، مگر اُنہوں نے اپنا دامن ہر نوع کی بدعنوانی سے پاک صاف رکھا۔ مَیں خود بھی اِسی محکمے میں بطور سگنیلر ملازم ہوا اَور ہم تک محکمے کی ہر خبر پہنچ جاتی تھی۔ آبپاشی کا محکمہ جو بہت وسیع تھا، اِس میں اِن دونوں بھائیوں کی امانت اور دِیانت کی گواہی دی جاتی تھی۔ بھائی عبدالسلام کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جب دورے پہ جاتے، تو چائے کی پیالی پینے کے بھی روادار نہ ہوتے۔ ہمیشہ کھانے کا ٹفن اپنے ساتھ رکھتے۔ یہی عالم برادرم عبدالحفیظ کا تھا۔ یہی خوبیاں اُن کی نیک سیرت اولاد میں بھی منتقل ہوئیں۔ اُن کے بھائی عبدالرشید نے میکینکل میں ڈپلوما کیا اور بھرپور ٹریننگ کے سخت مراحل سے گزرے۔ اِس بنیاد پہ اُنہیں تربیلا ڈیم کی تعمیر میں کام کرنے لئے چُن لیا گیا۔ اُنہوں نے رات دن کام کر کے اعلیٰ کارکردگی کا نیا باب رقم کیا۔ پھر وہ کینیڈا چلے گئے اور اَپنی عمدہ کارکردگی سےپاکستان کی ساکھ قائم رکھے ہوئے ہیں۔برادرم عبدالسلام جو اَپنی صلاحیت اور اَچھی شہرت کی بنیاد پہ محکمۂ انہار میں سپرٹنڈنٹ کے اعلیٰ منصب تک پہنچ گئے تھے، اب اُنکے بیٹے عبدالحمید راوی بلڈرز کے روحِ رواں ہیں جو اَپنی نیک نامی کی بدولت بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اِسی طرح جناب شیخ عبدالحفیظ جنہوں نے حصولِ رزق کیلئے بڑی صعوبتیں برداشت کیں اور نیک نامی کمائی، اُنہوں نے میری بہن عجوبہ بیگم کے تعاون سے بچوں کی تربیتِ پہ خاص توجہ دی۔ ہمارے خاندان نے اُن بزرگوں کی عظمتِ کردار سے متاثر ہو کر میری بہن اُن سے بیاہ دِی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اُن کے تین صاحبزادے ہیں جو اَپنی اپنی جگہ نگینے کی طرح ہیں۔ اُن کے بڑے بیٹے عبدالسمیع نے بڑی نیک نامی سے حبیب بینک میں ۳۸ سال گزارے۔ ایک بار اُس کی تعیناتی کھٹمنڈو، نیپال میں ہو گئی۔ ایک سال بعد مجھے بھی وہاں جانے کا موقع ملا۔ اُن کے بینک گیا، تو سارا عملہ پاکستان کے بینکر کی تعریف کر رہا تھا۔ میرا سر فخر سے بلند ہوتا گیا۔ اُن کے تیسرے بیٹے حافظ عبدالرؤف جسے محکمہ انہار کے لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اب وہ پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ روایات کو فروغ دے رہے ہیں۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اِس خاندان سے وابستہ آرکیٹیکٹ عبدالبصیر اپنے پیشے میں مہارت کے ساتھ ساتھ اچھے کردار کی نہایت اعلیٰ شہرت رکھتے ہیں۔ اُن کی بہنوں کے بچے بھی اچھے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ اِس لیے اُن کی اولاد اِمتحانات میں قابلِ رشک پوزیشن حاصل کر رہی ہے۔ یہ میرے خاندان کی اخلاقی اور مذہبی نشوونما ہی ہے جو مجھے ابھی تک زندہ رَکھے ہوئے ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ میرے تایاجان شیخ عبدالستار قیامِ پاکستان سے پانچ چھ سال پہلے ریٹائر ہو گئے تھے، چنانچہ وہ لدھیانہ چھوڑ کر فیروزپور چلے آئے جہاں عبدالسلام تعینات تھے۔ اُن کے دوسرے صاحبزادے شیخ عبدالحفیظ بھی اُسی شہر میں آ گئے تھے جہاں اُنہیں محکمۂ انہار میں ملازمت مل گئی تھی۔ جب تقسیمِ ہند کا فیصلہ ہوا جو ہندوؤں اور سکھوں کو بہت شاک گزرا، تو پنجاب میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اِن ہنگاموں میں تایاجان نے پاکستان ہجرت کی اور جڑانوالہ چلے آئے جہاں عبدالسلام کی تعیناتی ہوئی تھی۔ وہ رَاستے کے مصائب سے نیم جاں ہو چکے تھے اور جلد ہی اُن کا انتقال ہو گیا۔ اللّٰہ اُن کی مغفرت کرے آمین!ہمارے والد ہمیں ہمیشہ صراطِ مستقیم پہ چلنے کی تاکید کرتے رہتے۔ مَیں نے اپنی طرف سے سیدھے راستے پہ چلتے رہنے کی مقدوربھر کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ ڈینگیں مارنے اور اَپنے آپ کو عقلِ کُل ثابت کرنے سے مکمل طور پہ گریز کیا جائے، جبکہ آجکل سارا کاروبارِ زندگی ہی مدح سرائی پہ ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ صحافیوں میں ایسے افراد خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اَپنے کام کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں۔