• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی نہ کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ انسان کی سوچوں کے دائرے موت کی کہانیاں بیان کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی نگاہوں کے سامنے کئی زندگیوں کو موت میں تبدیل ہوتے دیکھتا ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسکا کوئی خاص عزیز ہسپتال کے کسی کمرے میں بستر مرگ پر موت کی آخری ہچکیاں لے رہا ہوتا ہے، ہچکیوں کی یہ کہانی اس کے ذہن پہ نقش ہو جاتی ہے، یہ نقش کسی بھی موڑ پر ساحلوں پر پڑی سیپ کی طرح سامنے آ جاتا ہے، انسان کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ایک نہ ایک دن بے بسی کی تصویر بن کر موت کی بانہوں میں جھولنا پڑتا ہے، انسان کتنا ہی مشہور کیوں نہ ہو، خاک اسے اپنا رزق بنا کے رہتی ہے اور سب کچھ خاک کر کے رکھ دیتی ہے۔ طاقت، شہرت، حکومت اور دولت یہ ایسے منہ زور گھوڑے ہیں جو زوال کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور موت انہیں بے بس کر کے گرا دیتی ہے مگر انسان کہاں سمجھتے ہیں؟

وہ عارضی طاقت کو مستقل سمجھ بیٹھتے ہیں، ان کا سارا گھمنڈ ایک نہ ایک دن خاک میں رل کے رہ جاتا ہے، اچھے لوگ وہ ہیں جو عاجزی اختیار کریں، وہ بھی لوگ کمال ہیں جو عبرت حاصل کرتے ہیں، قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے طاقتور انسانوں کی بے بسی سے سبق حاصل کرتے ہیں، کاش انسان سمجھ جائے کہ یہ سب کچھ ذرا سی دیر کو ہے، طاقتوروں کی قبروں کو دیکھ کر ہمیشہ افتخار عارف کے دو مختلف اشعار یاد آتے ہیں کہ

ذرا سی دیر کا ہے یہ عروج مال و منال

ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ

…………

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

اچھی اولاد بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ والدین کی زندگی میں ان کی خدمت کرتی ہے اور وہ جب اس دنیا سے چلے جائیں تو ان کی قبروں پر حاضری دیتی ہے، ان کی قبروں کی صفائی کا اہتمام کرتی ہے، کوئی اپنے والدین کی قبروں پر پھول اگاتا ہے، کوئی شجر سایہ دار لگاتا ہے تو کوئی چراغ جلاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ شہروں کے قبرستانوں کو صفائی کے اعتبار سے شاندار کہا کرتے تھے مگر اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ صفائی کا خیال کرنیوالے غافل ہو گئےہیں، اتنے غافل کہ بعض قبرستانوں کی زمینوں پر گھر بنا دیئے گئے ہیں۔ ایک سینئربیوروکریٹ کہنے لگے کہ’’ایک دن میں اپنے والدِ محترم کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے گیا، میرے والد کی قبر کوئین میری روڈ پر گڑھی شاہو قبرستان میں ہے، یہ علاقہ لاہور میں کافی معروف ہے، میں اپنے والد محترم کی قبر پر اس لئے گیا تھا کہ دل چاہتا تھا کہ سکون کے ساتھ چند لمحے والد محترم کی قبر کے پاس کھڑا رہوں، فاتحہ خوانی کروں اور کتاب حکمت یعنی قرآن پاک کی تلاوت کروں مگر میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا کیونکہ جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو قبروں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میرے والد کی قبر کے گرد نہ صرف کانٹے دار جھاڑیاں تھیں بلکہ اس قدر بے ترتیبی تھی کہ قدم رکھنے کی جگہ میسر نہ آ سکی، درخت اور پودے بے ہنگم انداز میں پھیل چکے تھے، سارا منظر ویرانی اور افسردگی کی تصویر بن چکا تھا۔ میرے لئے یہ وہ جگہ تھی جہاں سکون، خشوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے تھی مگر بدانتظامی نے میرے لئے پورے ماحول کو بوجھل بنا دیا۔ میں وہاں بے بسی کی تصویر بن کے کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ اسلام ہمیں قبروں کے بارے میں بڑی واضح ہدایات دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ قبر ہمیں اسی حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے قبروں کے بارے میں سادہ طرز اختیار کرنے کی تاکید فرمائی۔ اسلامی تعلیمات ہمیں واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ قبرستان کی اصل روح سادگی اور عبرت ہے نہ کہ نمود و نمائش مگر افسوس کہ ہمارے قبرستانوں میں اس کے برعکس مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں سنگِ مرمر اور قیمتی کتبے ہیں، کہیں سیمنٹ اور ٹائلز سے بنی قبریں اور کہیں مال و دولت کے اظہار کا مقابلہ نظر آتا ہے۔ یہ سب اسلام کی اصل تعلیمات کے منافی ہے۔ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے مگر اس قبرستان میں تو صفائی نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آ رہی تھی۔ لاہور کی انتظامیہ کو تصویری مہم سے فرصت ملے تو قبرستانوں کی صفائی کو دیکھ لے، ویسے تو ہم ستھرا پنجاب کی اشتہاری مہم دیکھتے رہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کیا یہ قبرستان پنجاب سے باہر ہیں؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ قبر کی زیارت محض رسومات کیلئے نہیں بلکہ اپنی آخرت کو یاد کرنے اور مرحومین کیلئےدعا کرنے کیلئے ہے۔ قبروں پر حاضری دراصل عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے، اگر ہم وقتاً فوقتاً قبرستان جائیں تو نہ صرف مرحومین کو ایصالِ ثواب ہوگا بلکہ ہم خود بھی عاجزی اور احتسابِ نفس کے قریب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ متعلقہ حکام بالخصوص بلدیاتی ادارے، محکمہ اوقاف اور مقامی انتظامیہ قبرستانوں پر فوری توجہ دے۔ صفائی، راستوں کی ہمواری، روشنی اور پانی جیسی سہولیات فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ عوام کو بھی اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے تاکہ قبرستان ویران جنگلوں کا منظر پیش نہ کریں بلکہ سکون، دعا اور عبرت کی جگہ بن سکیں۔ قبرستانوں کی بدحالی دراصل ہماری اجتماعی غفلت کا آئینہ ہے‘‘۔ ایسے مایوس کن حالات میں محسن نقوی کے اشعار یاد آتے ہیں کہ

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

تازہ ترین