جولائی ،اگست ،ستمبر پاکستان کیلئے بہت ہی تباہ کن رہے ہیں۔ ایک طرف گلیشیر پگھلے اور گلگت بلتستان خیبر پختون خوا کو سیلابی ریلوں نے روندا۔ حکمرانوں کی نااہلی، بروقت منصوبہ بندی نہ کرنے اور غفلت برتنے سے ایک ہزار سے زیادہ قیمتی جانیں چلی گئیں ۔اس سے کہیں زیادہ زخمی،10 ہزار سے زیادہ گھر، چھ ہزار سے زیادہ مال مویشی، ان ریلوں کی نذرہو گئے۔ یہ صرف ابتدائی تخمینے ہیں ۔سرکاری رپورٹوں کے مطابق 2 لاکھ بیس ہزار ایکڑ چاول ضائع، 18 لاکھ ایکڑ زرعی ا راضی ناقابل کاشت، کپاس مکئی کی پکی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ۔ممکنہ نقصانات کا ابتدائی اندازہ چھ سے 10 ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اس لیے وہاں زیادہ انسان متاثر ہوئے ہیں۔ ابتدائی تخمینہ 40 لاکھ متاثرین کا ہے ،بے گھر 18 لاکھ ہوئے ہیں۔
یہ تین مہینے تو ان ہنگامی حالات اور دریاؤں کی برہمی دیکھتے گزر گئے ۔وفاقی اور صوبائی حکمران بیانات دے کر غیر ملکی دوروں پر جاتے رہے۔ ہم جمہوری ملک ہیں ہمارے ہاں سینٹ ایوان بالا بھی ہے اور قومی اسمبلی ایوان زیریں بھی ہے یعنی دو ایوانی مقننہ ہےجو آئینی ترمیم کیلئے تو بہت جدوجہد کرتی ہے۔ سیاسی غیر سیاسی، جماعتی غیر جماعتی ساری قوتیں ان ترامیم کی منظوری کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں۔ آج کل ہم 26 ویں آئینی ترمیم کے پھل کھا رہے ہیں ۔کسی کو بہت میٹھے لگ رہے ہیں۔ کسی کو بہت کڑوے ۔
سپریم کورٹ ہائی کورٹس انہی آئینی ترامیم کے ساتھ ہنسی خوشی دن گزار رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کی پہلے سے خبرداری کے باوجود تیاری نہ کرنے پر کسی ایوان بالا یا ایوان زیریں میں بات نہیں ہوئی ہے۔ابھی تک کسی اسمبلی میں کئی ارب ڈالر کے نقصانات اور ان کی تلافی پر بحث نہیں ہو رہی ہے جو سیلابی ریلوں سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ اس طرح ہمارے یہ جمہوری پلیٹ فارم جن پر ہر مہینے کروڑوں روپے غریب عوام کے خرچ ہوتے ہیں وہاں اکثریت کو درپیش مسائل پر تو کوئی بحث ہوتی ہے نہ قرارداد منظور ہوتی ہے ۔اقلیت یعنی چند خاندانوں کی سہولت کی آئینی ترامیم کیلئے ایوان کے اندر اور باہر بہت تگ ودو ہوتی ہے ۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر تبادلہ خیال کا دن۔ وہ اپنے موبائل کی اسکرین پر دنیا بھر کی خبریں دیکھتے سنتے ہیں ۔اپنے ملک اور حکمرانوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھتے اور جانتے ہیں ۔آج بھی وہ آپ سے بہت سے سوالات کرنے کو بے تاب ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس میں تاریخی تصویر جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میزبان ہیں اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل حافظ محمد عاصم منیر مہمانان خاص ہیں ۔اس ملاقات میں کیا کیا نکات زیر غور آئے ہیں۔ پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ، ابراہم ایکارڈ ،انڈیا کی جارحیت ،چین کے راہداری منصوبے ،پاکستان کی قیمتی معدنیات ان امور پر آپ ابھی سے تیاری کر لیں ۔اتوار کو ہی میری عرض ہوتی ہے کہ گھر کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ محلے کو بھی متوازن کریں اپنے گھر پر ہمسایوں کو بلا لیں یا مسجد میں اکٹھے ہو جائیں ۔ جب بلدیاتی صوبائی وفاقی حکومتیں آپ کی فکر نہ کر رہی ہوں تو آپ خود تو اپنے آس پاس کا درد سمجھیں۔ حکمران آپ کو اگر اہمیت نہ دیں آپ تو اپنی اہمیت سے غفلت نہ برتیں آپ میں سے ہر فرد اہم ہے۔
اپنے مسائل کیلئے آپ اگر متحرک ہوں گے تب ہی مسائل حل ہوں گے اور اس کیلئے باخبر ہونا ضروری ہے۔ اکتوبر کا مہینہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے ذکر میں گزرے گا۔ اگرچہ وفاق کی سطح پر نومبر میں پیش آنے والے واقعات کے سائے منڈلائیں گے۔ ان واقعات کا کروڑوں پاکستانیوں کی غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی سیلاب سے متاثر ہونے والے تین صوبوں اور دو وحدتوں کے نقصانات کا ۔اس کیلئے وزیراعظم ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں جسکے سربراہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ہیں ،ارکان میں وزیر خزانہ وزیر موسمیاتی تبدیلی اور چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز ہیں ۔وہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور ان کی ممکنہ تلافی پر غور کر رہے ہیں ۔آٹھ جولائی 2025 ءسے پانچ نہیں چھ دریا سندھ، کابل، جہلم، چناب، راوی، ستلج بہت غصے میں ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کی سربراہی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے نہ صرف 2025 کے سیلاب کی رپورٹ جاری کی ہے بلکہ ایک اور قابل ذکر کام یہ بھی کیا ہے کہ 173 صفحات پر مشتمل رپورٹ 1950 سے 2025 تک کے سیلابوں اور ان کے متاثرینِ نقصانات کی بھی شائع کر دی ہے۔ سیلاب ہر سال ہی قریباََ آتے رہے ہیں ملک کی آبادی بڑھتی رہی ہے ۔اس لیے نقصانات کا دائرہ بھی بڑھتا رہا ہے۔ مگر حکمرانوں کا انداز ایک جیسا ہی رہا ہے۔
2010 اور 2022کے سیلابوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب کی تباہ کاری کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ 27 اگست 2025کو موجودہ وزیر خزانہ نے معلوم نہیں کیوں ایک پریس کانفرنس میں اپنی ہی حکومت کو آئینہ دکھانا ضروری سمجھا ۔انہوں نے یاد دلایا کہ 2022 کے سیلاب کے نقصانات کی تلافی کے سلسلے میں پاکستان کی اپیل پر نو جنوری 2023 کو جنیوا میں عطیہ دہندہ ممالک کی کانفرنس ہوئی اس میں 40 ممالک نے شرکت کی ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ان ممالک نے قریبا 11 ارب ڈالر کے وعدے کیے تھے۔ لیکن پاکستان کو قابل اعتبار منصوبے بنا کر دینا تھے جس میں یہ سرمایہ کاری ہوتی۔ جنیوا کی اس کانفرنس میں موجودہ مستعد اور ہشاش بشاش وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف خود بھی میزبان تھے اور ان کے شریک میزبان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے متعلقہ محکمے ایسے قابل اعتبار منصوبے تیار کرنے میں ناکام رہے ۔اس طرح ان ممالک کو 11 ارب ڈالر کے وعدے نہ پورے کرنے کا موقع مل گیا ۔وزیر خزانہ نے ہی اس کانفرنس میں یہ سوال بھی کیا کہ ہمارے ریاستی اداروں اور وفاقی محکموں نے 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے کوئی سبق نہ سیکھا جس میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا اور اس میں سے 11 ارب ڈالر آ سکتے تھے جن کے حصول کیلئے متعلقہ محکمے نااہل ثابت ہوئے انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان سنچری یعنی 2047ءمیں پاکستان تین ٹریلین ڈالر کی اکانومی کا ہدف رکھ رہا ہے۔ ایسے رویوں سے یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اب اکتوبر میں پھر یہی مرحلہ درپیش ہوگا کہ ہمیں ان ممالک کیلئے پھر قابل اعتبار منصوبے بنانا ہوں گے۔
ناکامی اور نااہلی کی داستان 1985سے شروع ہوئی ہے اب تک جاری ہے۔آفریں ہے 25 کروڑ میں سے غریب اکثریت پر جو بد حالیوں کا مقابلہ اپنے طور پر کر رہی ہے۔ حکمران خاندان ملکوں ملکوں سیر کر رہے ہیں محلات میں مہمان نوازی کے مزے لے رہے ہیں۔