ایک ماں اپنی شادی شدہ بیٹی سے ملنے اچانک اُس کے گھرگئی۔بیٹی نے دروازہ کھولا اور ماں کودیکھتے ہی یکدم گھبرا کر اپنا دائیاں گال دوپٹے سے ڈھک لیا۔ماں کو شک پڑا۔ اس نے دوپٹہ ہٹانے کی کوشش کی لیکن بیٹی نے کوشش کی ماں اُس کا گال نہ دیکھ پائے۔لیکن ماں آخر ماں تھی اس نے زبردستی دوپٹہ ہٹایا اور بیٹی کا گال دیکھ کر تڑپ اٹھی۔ گال پر تھپڑ اور زخم کا نشان تھا۔ماں چلاتے ہوئے بولی’کہاں ہے تمہارا شوہر، آج میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔ بیٹی نے بڑا روکنے کی کوشش کی لیکن ماں تیزی سے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا۔اندر کا منظر دیکھ کر اُس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ داماد کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ مسکین زخموں سے چُو ر فرش پر پڑا کراہ رہا تھا۔گزشتہ دنوں سینٹ کی داخلہ کمیٹی نے گھریلوتشددپر ممانعت کا بل بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے۔عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار صرف عورت ہوتی ہے۔حالانکہ بعض کیسوں میں اس کے اُلٹ ہوتاہے۔مرد بیوی پر تشدد کرے تو شوربھی مچتا ہے،محلے والے بھی سن لیتے ہیں اورخود خاتون بھی بتا دیتی ہے۔لیکن جب بیوی مرد پر تشدد کرتی ہے تو اکثر مردوں کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ منہ سے’چوں‘ تک نہ نکلے۔بیچارے خود کو سائیلنٹ پر لگا لیتے ہیں اور باہر بھی کوئی پوچھے کہ چہرے پہ کیا ہوا ہے توہنس کرکہہ دیتے ہیں کہ چھوٹے بچے نے’کھرونڈے‘ مارے ہیں۔عورتوں پرتشدد نہیں ہوناچاہیے، مردوں پربھی نہیں ہوناچاہیے۔اسی لیے سینٹ میں کئی ایم این ایز کے احتجاج پربل میں ’عورتوں اوربچوں کے ساتھ لفظ’مرد‘ کا لفظ بھی ڈرافٹ میں شامل کردیا گیاہے‘۔تمام مردوں کو دِل کی گہرائیوں سے مبارک۔جن گھروں میں عورتیں مردبن جائیں وہاں مردوں کوبھی عورتوں کی طرح قانونی تحفظ ملنا چاہیے۔
٭٭٭٭
لاہور میں پانچ افرادراتوں رات چندے کے ڈبے ہتھوڑوں سے توڑ کر کیش لے کر فرار ہوگئے۔کیسے مسکین چور تھے جن کی نظرسکّوں اور دس دس روپے کے نوٹوں پرتھی۔کمبخت چار تھیلوں میں بھی کیش لے گئے ہوں تو پانچ ہزار سے زیادہ نہیں نکلنا۔اوپرسے پانچ لوگ تھے۔ رقم تقسیم ہوگی تو آخر میں سب کے حصے میں ایک ایک زنگر برگر ہی آئے گا۔چندوں کے ڈبے آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ان کیساتھ لاؤڈ اسپیکر پر ریکارڈنگ بھی چل رہی ہوتی ہے اوریہ خوشخبری بھی سنائی جارہی ہوتی ہے جونہی آپ چندا دیں گے آپ کے تمام رُکے ہوئے کام فوراً ہوجائینگے۔پچھلے دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر چندا باکس کے مالک رکشہ ڈرائیورہیں۔صبح رکھ جاتے ہیں رات کو نکال لیتے ہیں۔دیہاڑی لگے نہ لگے چار آنے ضرور آجاتے ہیں۔پہلے چندا ماموں ہوتے تھے آج کل چندا باکس ہوتے ہیں۔بڑے بڑے شاپنگ مالز تک میں یہ باکس موجود ہیں۔ کروڑوں روپے روز کمانیوالے یہ شاپنگ مال غریبوں کی خدمت کیلئے چندابدست رہتے ہیں اورلوگوں کے پیسوں سے کسی کی خدمت کرکے نیکی اپنے نام کروا لیتے ہیں۔
٭٭٭٭
آپ نے کبھی سوچا ہے اگر ہم دوٹانگوں کی بجائے چار ٹانگوں پر چل رہے ہوتے تو کیا ہوتا؟ زیادہ سے زیادہ ہمارے دوڑنے کی ا سپیڈ تیز ہوجاتی۔اسی بات پر جاپان میں ایک صاحب نے چارٹانگوں پر جانوروں کی طرح دوڑ کر عالمی ریکارڈ بنا لیا ہے۔عام بندہ یہ سوچ کر ہی خوفزدہ ہوجاتاہے کہ وہ کیسے کوئی عالمی ریکارڈ بنا سکتا ہے حالانکہ عالمی ریکارڈ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے بھی بنایا جاسکتا ہے۔آپ کو کبھی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کانوں کو ہاتھ لگا لیں کہ کیسا کیسا عالمی ریکارڈ بنایا جاچکا ہے۔آپ کو بس کچھ ایسا آنا چاہیے جو پہلے نہ ہوا ہو یا آپ اس سے بہتر کر سکیں۔بال بڑھا لیں، ناخن بڑھا لیں، تین دن باندر سے چپیڑیں کھالیں، ناف میں موم بتی فٹ کرکے دو دن گزار لیں، چار گھنٹے برف پر کھڑے ہوجائیں تو آپ بھی عالمی ریکارڈ بناسکتے ہیں۔ پوری پوری دیگ کھانیوالے جواں مرد تو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔مجھے یادہے ایک دفعہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک ایسا فن ہے جس کی بدولت وہ عالمی ریکارڈ بنا کرپوری دنیا میں ملک کا نام روشن کر سکتے۔میں نے تفصیل پوچھی تو پتا چلا کہ موصوف ایک منٹ میں ڈیڑھ سو دفعہ بھونک سکتے ہیں۔دوبارہ تو قبلہ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اُمید ہے سوشل میڈیا پر کامیابیاں سمیٹ رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭
ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ انسان کے جسم سے ہلکی سی روشنی خارج ہوتی ہے جو موت کے وقت ختم ہوجاتی ہے۔یہ تحقیق’جنرل آف فزیکل کیمسٹری‘ میں شائع ہوئی ہے۔کاش یہ سائنسدان ہم سے پوچھ لیتے توہم انہیں بتاتے کہ بھائی جان آپ کو تو آج پتا چلا ہے ہمارے ہاں تو آج بھی کرنٹ والے بزرگ ہوتے ہیں، بلب کی طرح روشن رہنے والے کامل انسان ہوگزرے ہیں۔کاش جو روشنی انسان کے جسم سے خارج ہوتی ہے وہ ہمارے باطن میں بھی اجالا کر سکے۔فی الحال تو ایسا لگتا ہے باطن یاتو بتی بجھا کرسورہا ہے یا لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ایک شوہرنے موکلات کے ماہر پیر صاحب سے پوچھا کہ دو تین دفعہ ایسا ہوا کہ رات کو اچانک میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی نے اپنا چہرہ بھی بستر کی چادر کے اندر کیا ہوا ہے اور چادر کے اندرعجیب سی روشنی پھیلی ہوئی ہے کیامیری بیوی کوئی عظیم ہستی بن چکی ہے؟پیر صاحب نے فوراًہوا میں ہاتھ گھمایا کچھ پڑھا، تھوڑی ہی دیر میں موکل حاضر ہوگیا۔پیر صاحب نے یہی سوال موکل سے پوچھا، کچھ دیر اس کا جواب غور سے سنتے رہے پھرگھور کر شوہر کو دیکھا اور قریب آنے کا اشارہ کیا۔شوہر قریب ہوا تو پیر نے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا’گدھے!اپنے موبائل کو لاک لگا، تیری بیوی رات کو تیرا موبائل چیک کرتی ہے‘۔