نیویارک کی چمکتی روشنیوں میں ڈوبا ہوا اقوام متحدہ کا وسیع و عریض ہال، جہاں دنیا کے بڑے بڑے رہنما اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ فضا سنجیدہ تھی مگر جیسے ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ماحول یکسر بدل گیا۔ سینکڑوں نمائندے یک زبان ہو کر احتجاج بلند کرنے لگے، ہال نعروں سے گونج اٹھا، ’’قاتل ....فلسطینیوں کا قاتل!‘‘ کی صدائیں چاروں طرف سنائی دینے لگیں۔ یہ احتجاج اس قدر شدید تھا کہ قافلوں کی صورت میں سفیر اور نمائندے اپنی نشستیں چھوڑ کر باہر نکلنا شروع ہوگئے۔ لمحوں میں وہ عظیم الشان ہال سنسان اور خالی ہوگیا۔
نیتن یاہو اکیلا ڈائس پر پہنچا اور اس نے تقریر شروع کی لیکن سامعین موجود ہی نہیں تھے۔ تاریخ میں شاید پہلی بار کسی اسرائیلی وزیر اعظم کو ایسے ذلت آمیز لمحے کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس نے اپنی ناکام تقریر کے بعد خاموشی سے ہال چھوڑ دیا۔چند لمحے گزرے اور سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا: ’’وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف!‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہی وہی نمائندے جو احتجاجاً باہر جاچکے تھے، ایک ایک کرکے واپس آنے لگے۔ خالی کرسیاں تیزی سے بھرنے لگیں۔
لمحوں میں وہ ہال جو ابھی سنسان تھا کھچا کھچ بھر گیا۔ سب کی نظریں ایک ہی شخصیت پر مرکوز تھیں۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف باوقار انداز میں، ہلکی سی مسکراہٹ اور غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ صرف ایک سربراہ حکومت کا داخلہ نہیں تھا بلکہ امت مسلمہ کے ایک رہنما کا ظہور تھا۔ شہباز شریف اب صرف پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہے ، وہ خادمین حرمین شریفین کا اعزاز حاصل کرنیوالے رہنما بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن بھارت کو نہ صرف عسکری میدان میں شکست فاش دی بلکہ سفارت کاری کے میدان میں اسے بھی بے نقاب کر دیا۔
چھ بھارتی جنگی جہازوں کا مار گرایا جانا دنیا کو یہ بتانے کیلئے کافی تھا کہ پاکستان ایک کمزور ملک نہیں بلکہ ایک مضبوط دفاعی قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر —چاہے وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوںیاروسی صدر پیوٹن ، چین کے صدر شی جن پنگ ہوں یا ترکی کے رجب طیب ایردوان —۔سب شہباز شریف سے ملاقات کو اعزاز سمجھتے ہیں۔
ڈائس پر پہنچتے ہی شہباز شریف نے وہی کیا جو ایک بہادر اور مدبر رہنما کرتا ہے۔ انہوں نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو دلیرانہ انداز میں پیش کیا۔ بھارت کو سخت لہجے میں للکارا اور ساتھ ہی امن کی پیشکش بھی کی۔ یہ سفارت کاری کا وہ نادر لمحہ تھا جس میں دشمن کو شکست بھی دی گئی اور مذاکرات کی گنجائش بھی رکھی گئی۔ انہوں نے امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ امن کا خواہاں ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ شکریہ بھارت کے زخموں پر نمک بھی ثابت ہوا۔ یہ شہباز شریف کی سفارت کاری تھی جو تلوار بھی تھی اور مرہم بھی۔
یہ دورہ صرف اقوام متحدہ کے ہال تک محدود نہیں رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا۔ ایک گھنٹہ بیس منٹ تک جاری رہنےوالی ملاقات میں امریکی صدر نے شہباز شریف کو ایک عظیم لیڈر اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ذہین اور دوراندیش قرار دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے مل کر دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان متحد ہے اور دنیا کے مسائل، خاص طور پر فلسطین کے حق میں، ایک آواز رکھتا ہے۔
شہباز شریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کریڈٹ اکیلے نہیں لیتے۔ انہوں نے جنگی کامیابیوں کا سہرا فیلڈ مارشل عاصم منیر کے سر باندھا، فضائی برتری کا کریڈٹ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کو دیا۔ ایک ایسا رہنما جو اپنی ٹیم کے حق داروں کو عزت دے، وہی حقیقی معنوں میں بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے شہباز شریف کو دنیا کے سامنے ایک ایسے قائد کے طور پر پیش کیا جو ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔
یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی اس کامیابی میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا بھی کردار ہے۔ دن رات کی محنت، میڈیا مینجمنٹ اور سفارتی ٹیم کے ساتھ مربوط حکمت عملی کے ذریعے انہوں نے دنیا کے ہر بڑے میڈیا ہاؤس میں پاکستان کی موجودگی یقینی بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سی این این سے بی بی سی اور الجزیرہ تک ہر چینل پر پاکستان کا موقف گونج رہا ہے۔
نیویارک کے اس ہال میں ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا، دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم کو عزت، وقار اور پذیرائی ملی۔ یہ منظر تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا۔ شہباز شریف نے نہ صرف فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ لڑا بلکہ پاکستان کو عالمی برادری میں ایک نئی منزل سے روشناس کرایا۔
اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ یہ عزت، یہ مقام اور یہ کامیابی پاکستان کے عام عوام تک پہنچے۔ اگر وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر معاشی خوشحالی کو پچیس کروڑ پاکستانیوں تک لے آئیں، تو یہ قوم پر ایک احسان عظیم ہوگا۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کا دفاع بھی جانتا ہے، امن کی بات بھی کرتا ہے اور امت مسلمہ کی قیادت کا اہل بھی ہے۔ آج پاکستان کو اللہ نے جو مقام دیا ہے وہ محض عسکری یا سفارتی کامیابی نہیں بلکہ ایک ایسی اجتماعی عزت ہے جس نے پوری قوم کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں۔ یہ پاکستان کی وہ اُڑان ہے جو مشرق سے مغرب تک اپنی پہچان بنا رہی ہے۔