• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے دو سال پہلے عرب ملکوں اور اسرائیل میں مستقل دوستی کی راہ تقریباً ہموار ہوچکی تھی، ابراہام اکارڈ کا دائرہ چار پانچ ملکوں سے بڑھ کر پوری عرب اور مسلم دنیا تک وسیع ہوجانے کے امکانات نمایاں تھے، اسرائیلی، امریکی اور سعودی حکمرانوں کے بیانات سے واضح تھا کہ باقاعدہ سفارتی تعلقات کی منزل تک پہنچنے میں دوچار گام ہی کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ دو ریاستی حل یعنی خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب پورا ہونے کے آثار معدوم ہوگئے تھے، پاکستان کیخلاف دہشت گردی کا بھارتی پروپیگنڈا عالمی سطح پر خاصا مؤثر تھا، جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی ایک مسلمہ حقیقت سمجھی جاتی تھی، بھارتی حکومت نہایت ڈھٹائی کیساتھ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے بھارت میں باقاعدہ شامل کرچکی تھی اور اس کھلی غاصبانہ کارروائی پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے کمزور ردعمل نے دنیا کو یقین دلادیا تھا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایسا ہی ہے جیسے ایک قوی ہیکل دیو کے سامنے کوئی بونا۔ معاشی ابتری کے باعث پاکستانی حکمراں دولت مند دوستوں کی نگاہ کرم کے محتاج اور انکے در سے جو کچھ مل جاتا اس پر سجدہ شکر بجالانے پر مجبور تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ منظر نامہ آج یکسر بدل چکا ہے۔

اسرائیل کیخلاف حماس کے سات اکتوبر کے جس اقدام پر اپنوں پرائیوں سب ہی کا خیال تھا کہ یہ کارروائی خودکشی کے مترادف ہے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی توقع رکھنا نری حماقت ہے، اسی اقدام کے باعث آج عالمی رائے عامہ اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیل کے خلاف اور خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے، جس کا تصور بھی اس سے پہلے محال تھا۔ حالیہ دنوں میںاسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا اور متعدد دیگر ممالک کے بعد اب اقوام متحدہ کے 193میں سے151ارکان فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کی تقریر کا بیشتر ملکوں نے بائیکاٹ کرکے اور پاکستانی وزیر اعظم کے خطاب پر گرم جوش ردعمل ظاہر کرکے بتادیا ہے کہ عالمی سیاست میں ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے۔ مسلم دنیا میں اسرائیل سے سفارتی روابط قائم کرنے کا جو رجحان روز بروز بڑھ رہا تھا، اسے ریورس گیئر لگ گیا ہے۔

جس غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کراکے عالمی سیاحت اور عیاشی کا اڈہ بنانے کے منصوبوں کا اعلان واشنگٹن سے کیا جارہا تھا،اس کے بجائے اب اس کی تعمیر نوکراکے اسے فلسطینیوں کے حوالے کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں۔ نیتن یاہوجس مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بناکر فلسطینی ریاست کا منصوبہ ہمیشہ کیلئے دفن کردینے کے اعلانات کررہے تھے ، ڈونلڈ ٹرمپ یقین دلارہے ہیں کہ وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ بلاشبہ یہ حماس کے رہنماؤں، کارکنوں اور غزہ کے عام شہریوں کے جذبہ حریت اور خودداری کا ثمر ہے جنہوں نے فلسطین کے ایشو کو زندہ رکھنے کی خاطر ایسی بھاری قربانی دی، عالمی تاریخ میں جسکی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔

اس بدلتی دنیا میں اللہ کے فضل سے پاکستان کو ایسا مرکزی مقام حاصل ہوگیا ہے جو ہماری کسی قومی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کو دنیا میں یہ مقام دلانے کا اوّلین کریڈٹ نریندر مودی کو جاتا ہے۔ پہلگام ڈراما رچاکر پاکستان کو پوری دنیا میں تنہا کردینے اور جارحیت کا نشانہ بناکر ہمیشہ کیلئے سرنگوں کردینے کا جو شیطانی منصوبہ انہوں نے بنایا تھا، اس کا نشانہ وہ خود ہی بن گئے اور افواج پاکستان کی شاندار کارکردگی اور قومی مفاد کی خاطر سیاسی اور عسکری قیادت کے بے مثال باہمی تعاون نے بھارت کو بدترین شکست کی صورت میں تاریخی ذلت و رسوائی سے دوچار کیا جبکہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد سعودی عرب کا پاکستان سے دفاعی معاہدہ عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت کئی گنا بڑھانے کا سبب بن گیا۔

جنگ مئی میں شکست کے بعد جنوبی ایشیا میں عشروں سے امریکہ کے پولیس مین کا کردار انجام دینے والا بھارت واشنگٹن کی نگاہوں میں حد درجہ بے توقیر ہوگیا اور صدر ٹرمپ نے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی صلاحیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس کا مسلسل جاری رہنا سیاسی مبصرین کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی کے سبب حیرت انگیز ہے۔تاہم ان کے اس رویے سے پتا چلتا ہے کہ وہ پاکستان سے مستقل بنیادوں پر گرمجوش تعلقات کو امریکہ کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اس کے اسباب کیا ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیرسے ان کی حالیہ ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات میں ہونے والی بات چیت سے یقیناً اس کا اندازہ ہوسکتا ہے جسکی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔

تاہم اس کے بعد جنرل اسمبلی سے فکر انگیز خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف کا جرأت مندانہ اور پراعتماد لہجہ، کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل کی عیارانہ اور جابرانہ پالیسیوں کی نقاب کشائی،جنگ جیت کر امن کی خاطر بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر بامقصد مذاکرات کی پیشکش، ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر اہم عالمی مسائل کی بھرپور نشان دہی اور مفید تجاویز سے واضح ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی عالمی اہمیت مستقل بنیادوں پر تسلیم کرلی ہے ۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ حکمت عملی کے مطابق ایسی کامیاب خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے جس نے خارجہ محاذ پر پچھلے دور حکومت کی تمام ناکامیوں کا ازالہ کردیا ہے۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدے نے معاشی ترقی کے نئے امکانات روشن کردیے ہیں۔

ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ملک میں سیاسی مفاہمت اور استحکام ، عدلیہ کے اعتبار میں اضافے، کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے، تعلیمی معیار کی بہتری، لوگوں کو ریاست کا باغی بنادینے والے لاپتا افراد کے مسئلے کے مستقل اور باعزت حل اور عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے ۔ اس سب کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن محاذ آرائی کے بجائے کھلے دل سے افہام و تفہیم کی راہ اپنائیں تاکہ بدلتی دنیا میں پاکستان کا دائمی طور پر سربلند و سرفرازہونا یقینی ہوجائے۔

تازہ ترین