تقریباًبیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں ایک دوست کے بھائی کی شادی میں شریک تھا۔ اچانک شورسا اٹھا۔ پتا چلا کہ دولہاکے چچااور ماموں کی وجہ سے کوئی گڑ بڑہوئی ہے۔میں اپنے دوست کے ہمراہ دوسری طرف پہنچا تو کیا دیکھتاہوں کہ چچا نے سلام کیلئے ہاتھ بڑھایاہواہے جبکہ ماموں منہ پھلائے کھڑے ہیں۔ سب رشتہ دارانہیں کہہ رہے ہیں کہ ناراضی چھوڑیں اور ہاتھ ملا لیں لیکن ماموں نہیں مان رہے۔ چچا کا ہاتھ مسلسل سلام کیلئے ہوا میں اٹھا ہوا تھا اور بضد تھے کہ ماموں سے ہاتھ ملا کر ہی جائیں گے۔ بالآخر جب چچا نے دیکھا کہ زیادہ ہی بے عزتی ہورہی ہے تو انہوں نے ماموں سے کہا’میں اپنی ساری غلطیوں کی معافی مانگتا ہوں آپ بالکل ٹھیک تھے مہربانی فرما کر ہاتھ ملا لیں‘۔ یہ سن کر ماموں کا سینہ پھول گیا۔ انہوں نے فخر سے سارے رشتہ داروں کی طرف دیکھا اور طنزیہ انداز میں دولہا کے چچا کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ جونہی ماموں کا ہاتھ قریب پہنچا، چچا نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا اور سیٹی بجاتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے۔لوگوں میں اتنا زوردار قہقہہ گونجا کہ آج بھی یاد کرتا ہوں تو مجھے واضح سنائی دیتا ہے۔ یہی کچھ محسن نقوی صاحب کو بھی کرنا چاہیے تھا۔انڈین ٹیم کو ٹرافی کیلئے قائل کرتے اور پھر’سوری‘ کہہ کر نکل جاتے۔ان کا یہی علاج ہے۔پتا نہیں کیوں بھارتی بدتمیزیوں کے باوجود ہم اخلاقی برتری کیلئے ترسے ہوئے ہیں۔ایسے رویوں کے جواب میں ’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘ والا کلیہ اپنانا چاہیے۔حالیہ جنگ میں اس کا ثبوت بھی مل چکا ہے۔
٭٭٭٭
ایک دور تھاجب چھوٹے بچے سے پوچھا جاتا تھا کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے توتین چار رٹے رٹائے جواب ملتے تھے کہ ڈاکٹر بنوں گا، انجینئربنوں گا یاپائلٹ بنوں گا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انٹرنیٹ نام کی ایک چیز آئے گی، پھر اس پرسوشل میڈیا کی ایپس آئیں گی اور کئی لوگ گھر بیٹھے اُنہی سے مستقل روزگار کمائیں گے۔ تب کاروبار بھی مخصوص ہوا کرتے تھے۔آج کل توکٹے ہوئے بال بھی فروخت ہوجاتے ہیں۔تازہ ترین خبر کے مطابق چین میں ایک کمپنی انسانی ہاتھ کے ناخن 21 ڈالر فی کلو کے حساب سے خریدتی ہے اور پھر انہیں صاف ستھر اکرکے پیس کر پاؤڈر بنایا جاتاہے اور مختلف دوائیوں میں استعمال کیا جاتاہے۔چینی طب میں ناخنوں کا استعمال بہت پرانا ہے اور دلچسپی کی بات ہے کہ ان ناخنوں کی قیمت تب ہی ملتی ہے جب یہ ہاتھ کے ناخن ہوں۔پاؤں کے ناخنوں کی کوئی ویلیو نہیں۔ہمیں بچپن سے پڑھایاگیاتھا کہ کٹے ہوئے ناخن، کٹے ہوئے بال اور تخت سے اترے بادشاہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔چین والوں نے یہ بھی غلط کردکھایا ہے۔مجھے تو افسوس ہورہاہے کہ آج تک کی زندگی میں خواہ مخواہ ناخن کاٹ کر پھینکتا رہا۔آج اگر جمع کیے ہوتے تو ایک لاکھ ڈالر کہیں نہیں گیا تھا۔پاؤں کے ناخن شایداس لیے کارآمد نہیں ہوتے کہ کبھی پاؤں پڑی چیز بھی کارآمدہوئی ہے؟ہوشیاررہئے گا، یہ نہ ہو آئندہ ڈکیتیاں ناخنوں پر شروع ہوجائیں اور خبریں کچھ اس قسم کی آنے لگیں کہ دو ڈاکوپورے گھر والوں کو رسیوں سے باندھ کرایک پاؤ ناخن کاٹ کرلے گئے۔ہمارے ہاں گئے وقتوں میں چھوٹے بچے کو بٹھا کر ناخنوں میں چورڈھونڈا جاتاتھا، چینیوں نے ناخنوں میں علاج ڈھونڈ لیاہے۔
٭٭٭٭
وزن کم کرنے کاشوق پوری دنیا میں پایا جاتاہے۔ہمارے ہاں بھی اس کیلئے مختلف قسم کے ڈائٹ پلان بتائے جاتے ہیں جن میں ایک ہے’کیٹوڈائٹ‘۔ یہ وہ خوراک ہوتی ہے جس میں کم کاربوہائیڈریٹ، زیادہ چکنائی اورمناسب مقدار میں پروٹین تجویز کی جاتی ہے۔ عام ڈائٹ پلان کے برعکس کیٹو ڈائٹ میں صرف چینی سے پرہیز ہے ۔ تازہ امریکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کیٹوڈائٹ دل اور جگر کی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں وزن کم کرنے کیلئے کھانا کم کرنا سب سے آسان طریقہ سمجھا جاتاہے۔ورزش یا کوئی فزیکل گیم ہم کھیلناہی نہیں چاہتے۔میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو سلم بھی ہیں اور کھاتے بھی سب کچھ ہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی گیم ضرورکھیلتےہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل نے ہمیں چلنے پھرنے سے قاصرکر دیا ہے۔ بچوں نے تنور سے روٹیاں بھی لانی ہوں تو موٹرسائیکل کے بغیر نہیں جاتے۔دو چارکلومیٹر تو دور کی بات ہم ایک کلومیٹر پیدل چلنابھی عذاب سمجھنے لگے ہیں۔معمولات زندگی بدل گئے ہیں۔راتوں کو جاگنا، دن کو سونا، کھانے کے بعد لیٹ جانااور پیدل نہ چلنا، یہ سب چربی کوایسے بڑھاتے ہیں جیسے مٹی کا چھوٹا سا ڈھیر پڑے پڑے بڑا ہوجاتاہے۔ڈائٹ پلان کی جگہ وزرش پلان کی صلاح دینی چاہیے ورنہ یہی ہوگا کہ لوگ دو کلو چکن کڑاہی، چھ نان اور ایک کلو کھیرکھانے کے بعد ڈائٹ بوتل منگواتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
آخر میں ایک قصہ سنتے جائیں۔ ایک گاؤں میں چوہدریوں اور مزارعوں کی لڑائی ہوگئی۔ چوہدری طاقتور تھے لہٰذا انہوں نے مزارعوں کے آدھے خاندان کو قتل کردیا۔ گاؤں کے لوگوں میں بے چینی پھیلی تو وڈے چوہدری نے سب کو اکٹھا کیا اور کہنے لگے ’چونکہ ہم امن کے حامی ہیں لہٰذا آج کے بعد اگر مزارعے یہ گاؤں چھوڑ جائیں، اپنی زمینیں اور مویشی ہمیں دیدیں، دوبارہ اِدھر کا رخ نہ کریں تو ہم کبھی انکے مزید بندے نہیں مارینگے۔‘ یہ سنکر پورا گاؤں سکتے میں آگیا۔ وڈے چوہدری صاحب نے گاؤں والوں کو خاموش دیکھا تو گہری سانس لیکر بولے ’اس امن معاہدے میں اگر کسی نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی یا تالیاں نہ بجائیں تو اسے بھی مزارعوں کا ساتھی سمجھا جائیگا‘۔ یہ سننا تھا کہ پورا گاؤں کھڑا ہوگیا اور تالیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ اس پروڈے چوہدری نے سب کا عاجزانہ شکریہ ادا کیا۔ امریکی صدر نے بڑے فخر سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے انکا غزہ امن معاہدہ مان لیا ہے جسکے مطابق حماس کو اسرائیل کے سارے یرغمالی رہا کرنے ہونگے اور فلسطین میں نئی حکومت قائم ہوگی۔