’’میں آپ کو پوری ذمہ داری سے یقین دلاتا ہوں کہ پہاڑوں پر جانے کا فیصلہ میرا نہ تھا‘‘ یہ الفاظ اُس آزاد منش نواب خیر بخش مری نے آزاد طبع خان عبدالولی خان کے روبرو ادا کئے، جن پر بندوق اٹھانے کالغو الزام تھا، تاریخ شاہد ہے پختونوں و بلوچوں میں صدیوں سے برادرانہ تعلقات قائم ہیں، افغان حکمران احمد شاہ ابدالی نے انہیں ایک لڑی میں پرو دیا تھا، تحریک آزادی کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد باچا خان اور خان شہید عبدالصمد اچکزئی کی کوششوں سے یہ تاریخی سماجی تعلقات سیاسی تعلقات میں بھی ڈھل گئے۔ 1956ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے قیام کے بعد یہ تعلقات سیاسی و نظریاتی خطوط پر ایسے استوار ہو گئے کہ آج بھی پختون بلوچ مختلف جماعتوں میں ہونے کے باوجود ان تعلقات کے زیر اثر ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کے دوران چوٹی کے بلوچ پختون رہنمائوں سمیت قدآور ترقی پسند،خان عبدالولی خان کی قیادت میں متحرک تھے ان انتخابات میں بلوچستان میں نیپ نے شاندار کامیابی حاصل کر لی جبکہ پیپلزپارٹی کا قومی و صوبائی اسمبلی سے ایک بھی نمائندہ کامیاب نہ ہو سکا، نیپ کے سردار عطا اللہ مینگل صاحب وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو صاحب گورنر بنے۔ بلوچ سرداروں سے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ یہ سرداری نظام ختم کرنا نہیں چاہتے تاہم یہاں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ نیپ حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان اسمبلی نے سرداری نظام کی منسوخی کی قرارداد جب متفقہ طور پر منظور کی تو حیران کن طور پر پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے اس کی توثیق نہیں کی، جہاں یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ترقی پسند قوم پرست حقیقی معنوں میں عوامی جمہوریہ کی جانب پیشرفت کے خواہاں تھے وہاں میروں، پیروں، وڈیروں میں گھری پیپلز پارٹی کیلئے ایسا ممکن نہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ احساس محرومی کے خاتمے کی جانب نیپ حکومت کی پیش قدمی روکنے کیلئے پہلے تو اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے سے روسی اسلحہ برآمد کئے جانے کا ڈرامہ رچایا گیا، بعد ازاں لسبیلہ میں امن و امان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر بلوچستان کی حکومت برطرف کر دی گئی( حالانکہ سندھ میں سندھی مہاجر فسادات اس سے کہیں بڑھ کر اور ہمہ گیر نقصانات کے حامل تھے) اس دوران خیر بخش مری صاحب نیپ بلوچستان کے صدر تھے، بلوچوں سے اس نا انصافی پر پختونخوا میں نیپ جے یو آئی کی حکومت نے بھی احتجاجاً استعفے دے دیئے۔ مختصر یہ کہ نیپ پر پابندی لگا دی گئی، بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے اور ولی خان صاحب نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا، لیاقت باغ پنڈی میں شیر پنجاب غلام مصطفی کھر کی راج دھانی میں متحدہ اپوزیشن کے جلسے پر فائر کھول دیا گیا، پختونخوا سے پنجاب آئے نیپ کے متعدد کارکنان شہید ہوئے، اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر اجمل خٹک صاحب جو اس وقت نیپ کے سیکرٹری جنرل تھے، افغانستان چلے گئے، پیپلزپارٹی کی حکومت نے حیدرآباد سازش کیس کے تحت خان عبدالولی خان، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، قصور گردیزی، حاجی غلام احمد بلور،حبیب جالب،نجم سیٹھی سمیت نیپ کے 122 سرکردہ رہنمائوں کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل میں پابند سلاسل کیا۔ اس مقدمے کے 455گواہ تھے، 18ماہ میں جب صرف 22گواہ بھگتائے جا سکے، تو ولی خان نے عدالت کے سربراہ سے درخواست کی ’’حضور ابِ حیات کا انتظام کیجئے، ہمیں پلایئے کہ مقدمے کی سماعت تک زندہ رہ سکیں، خود بھی پی لیجئے کہ آپ اس کا فیصلہ لکھ سکیں، بھٹو صاحب کو پلا دیجئے تاکہ وہ فیصلہ ہونے تک زندہ رہیں، ڈیڑھ سال میں 22گواہ پیش ہونے کا مطلب ہے کہ نصف صدی استغاثہ کے گواہوں اور اتنے ہی سال صفائی کے گواہوں کیلئے درکار ہوں گے!!‘‘ ولی خان صاحب حیدرآباد ٹریبونل میں ملزم نمبر 1تھے۔ ضیا الحق صاحب کے آنے پر 5جولائی 1977ء کو وفاقی سیکرٹری داخلہ گرفتار ہو گئے اور عدالت لائے گئے، جب ولی خان صاحب نے لگائے گئے الزامات کی وضاحت مانگی تو وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا ’’خان صاحب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں معاف کر دیں‘‘۔ خان صاحب نے جواب دیا کہ ’’بچے تو ان120افراد کے بھی ہوں گے جنہیں دو سال سے آپ نے اِدھر بیٹھا رکھا ہے استغاثہ پر تمہارے دستخط موجود ہیں آپ کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے‘‘۔سابق سیکرٹری داخلہ نے کہا ’’میں نے استغاثہ نہیں لکھا، مجبوری میں دستخط کئے تھے‘‘ جس پر جج نے پوچھا کہ ’’تم استغاثہ کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے !؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’ہرگز قبول نہیں کرتا‘‘ اس پر عدالت نے ملزمان سے رہائی کیلئے ضمانتیں مانگیں لیکن ولی خان صاحب نے کہا ’’ہم کس خوشی میں ضمانت پر رہائی لیں، ہمارے خلاف مقدمہ ہی کیا بنتا ہے‘‘!؟ مقدمے کی روداد میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے دلچسپ، حیرت انگیز اور چشم کشا معلومات پر مبنی بصیرت افروز مواد موجود ہے تاہم ایک کالم میں اس کا احاطہ ممکن نہیں، بہرکیف ضیا الحق صاحب نے بلوچوں کیلئے عام معافی اور نقصان کی تلافی کا اعلان کیا، ولی خان صاحب اپنی تصنیف ’’باچا خان اور خدائی خدمتگاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بلوچوں کے پہاڑوں پر چلے جانے اور کمیونسٹوں سے تعلقات پر انہیں شدید صدمہ پہنچا تھا لیکن چونکہ بلوچوں پر ابتلا کا وقت تھا اس لئے وہ خاموش رہے لیکن جب بلوچ رہنمائوں سمیت نیپ کی تمام قیادت جیل سے رہا ہونے والی تھی، تو میں نے حیدرآباد جیل میں خیر بخش مری سے ملاقات کی اور ان سے کہا’’پہاڑوں پر چلے جانا کسی بھی طور پارٹی کا نہیں، آپ لوگوں کا اپنا فیصلہ تھا،1942کے بعد تقریباً 40سال سے میں باچا خان کے نظریہ عدم تشدد پر سختی سے کار بند ہوں لیکن چونکہ پختونوں کی روایات ہیں کہ وہ مشکل وقت میں دوست کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس لئے میں نے بھی مورچے میں آپ کے ساتھ چھلانگ لگادی،سیاسی محاذ پرنہ صرف جدوجہد کی بلکہ نسیم (محترمہ نسیم ولی خان) نے کابل جاکر سردار داد سے ملاقات کرکے افغانستان آنے والے بلوچ بھائیوں کی مہمان نوازی کیلئے بھی درخواست کی۔آپ لوگوں نے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ اور کونسل کو بالائے طاق رکھ کر تمام فیصلے کئے، جس سے میں اس نتیجے پر پہنچاکہ آپ نیپ کے ساتھ چلنانہیں چاہتے تھے تاہم میں خاموشی سے یہ کڑوا گھونٹ اس لئے پیتا رہاکہ آپ لوگ تکلیف میں تھے، آج دکھی دل کے ساتھ یہ کہنے آیاہوں کہ کل سے آپ کی اور ہماری سیاسی راہیں جدا ہو جائیں گی‘‘۔ ولی خان صاحب کی یہ گفتگو اُن کی کتاب میں سات بڑے صفحات پرموجود ہے،خان صاحب لکھتے ہیں کہ میری ان طویل و تفصیلی باتوں کو خیر بخش صاحب غور و انہماک سے سنتے رہے اور اس دوران اور گفتگو کے بعد خاموش رہے،کچھ نہ کہا، صرف اتنا کہا’’میں آپ کو پوری ذمہ داری سے یہ یقین دہانی کرانا چاہتاہوں کہ پہاڑوں پر جانے کا فیصلہ میرا نہ تھا‘‘....یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ آگ لگانے والی اصل قوتوں کے کھوج کے بجائے بھٹو صاحب کی حکومت نے بلوچ لیڈر شپ کو ہی اس کاذمہ دار کیوں ٹھہرایا!؟، بزرگ خیر بخش مری صاحب حالیہ صورت حال میں بھی تشدد کے خلاف تھے لیکن اُن کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا گیا، سردار عطاءاللہ مینگل صاحب کی خدمات آج بھی سودمند ثابت ہو سکتی ہیں، اگر کوئی اور نہیں تو بلوچستان میں حقیقی قوم پرستوں کی حکومت قائم ہے، وہ کیوں اس سلسلے میں مخمصے سے دوچار ہے؟