• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی تاریخ شاہد ہے ،عظیم آبی منصوبہ جات جب تک ماہرین کے اتفاق رائے سے شروع ہوتے رہے، کامیاب ہو گئے۔ بعدازاں سیاسی قیادت سے بھی آشیرآباد حاصل کی گئی تاکہ عملدرآمد ہو۔ تربیلاڈیم، منگلا ڈیم، وارسک ڈیم اور چشمہ جہلم کینال کی تعمیر پیشہ ورانہ اور سیاسی ہم آہنگی کی مثالیں ہیں۔ لیکن جب کبھی غیر پیشہ ور عناصر نے اپنے بے بنیاد خدشات کی بناء پر قوم کو تقسیم کر کے عوامی مفاد کے پراجیکٹس کو متنازعہ بنا دیا تو برکتیں اُٹھ گئیں اور ملک کو اب تک اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران کالاباغ ڈیم، بھاشاڈیم اور سندھ میں نئے نہری نظام کی اہمیت سے کسی کو انکار نہ تھا۔ ماہرین کا نقطہ اختلاف انکی تعمیر کیلئے ترجیحات پر مرکوز تھا۔ نامور انجینئرز جناب شمس الملک، ممتاز علی ظفر و دیگر اپنے تکنیکی دلائل سے پسندیدہ ڈیمز بارے دلائل دے رہے تھے۔ اس دوران ہم نے بھی روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ان صفحات پر اپنے مضامین کے ذریعے ان مباحث میں حصہ لیا۔ چنانچہ 3جون 1987ء کی اشاعت میں اپنے آرٹیکل بعنوان ’’کالاباغ ڈیم کیوں ضروری ہے‘‘ میں وضاحت سے لکھا: ’’ملک کو زرعی اور صنعتی ترقی کیلئےپانی اور بجلی کے جس فوری بحران کا سامنا ہے، آیئے دیکھیں کہ بھاشا اور کالاباغ میں سے کون سا ڈیم اس کمی کو پورا کرنے کا اہل ہے...بھاشا ڈیم کی جھیل میں صرف دریائے سندھ کے ایک حصہ کا پانی ہی جمع ہو گا۔ اسکے برعکس کالاباغ ڈیم میں دریائے کابل اور دریائے سندھ ہر دو دریاؤں کا پانی حاصل ہو گا کیوں کہ مذکورہ دو دریاؤں کا اتصال کالاباغ سے اُوپر اٹک کے مقام پر ہے۔ جتنا پانی اتنی بجلی، کے اُصول کے مطابق اس طرح کالاباغ ڈیم سے تقریباً دُگنی برقی قوت حاصل ہو گی۔ بھاشا کے مقام پر ڈیم کی دیوار کی زیادہ سے زیادہ لمبائی کالاباغ ڈیم کی مجوزہ لمبائی سے آدھی کم ہے۔بھاشاڈیم کی جھیل میں پانی کی مقدار کو کالاباغ جھیل کے برابر لانے کیلئے بھاشاڈیم کی دیوار ممکنہ بلندی سے کہیں زیادہ رکھنا ہو گی۔ نتیجتاً 120کلومیٹر طویل شاہراہ ریشم جھیل کے پانی میں غرق ہو جائیگی۔ خدانخواستہ یہ قدیم راستہ ڈوب گیا جو کہ دریا اور سڑک کا مشترک رُوٹ ہے تو پھر متبادل سڑک کی تعمیر تقریباً ناممکن ہو گی۔ متبادل راستے میں پڑنے والے سنگلاخ پہاڑوں میں سے سرنگیں نکال کر سڑک تعمیر کرنا نہ صرف مشکل ترین ہے، بلکہ اس پر اربوں روپے کے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ علاوہ ازیں شمالی علاقہ جات جو براہِ راست روس و بھارت کی زد میں ہیں، دفاعی نقطہ نظر سے کئی سال پیچھے چلے جائینگے۔ بھاشاڈیم سے ملک کے میدانی علاقوں تک بجلی کی ترسیل کا نظام جو کہ دُشوار گزار شمالی علاقوں میں سے گزر کر جائیگا اس پر بے پناہ لاگت آئیگی۔ بھاشاڈیم پروجیکٹ پر تحقیق کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ یہ کام ہنگامی بنیادوں پر بھی کیا جائے تو صرف قابل عمل ہونے کی رپورٹ پانچ سال بعد تیار ہو گی۔ تب تک کالاباغ ڈیم پروڈکشن کے قابل ہو جائیگا۔ لہٰذا اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ فوری اور مطلوبہ فوائد کیلئے کالاباغ ڈیم بہت ضروری ہے‘‘۔

ان تکنیکی مباحث کے نتیجہ میں ماہرین ڈیموں کی تعمیر بارے ترجیحی فہرست پر اتفاق کرنے والے تھے کہ اس دوران مختلف گروہوں نے ڈیموں کی آڑ میں احتجاجی سیاست شروع کر دی۔ 1990ء کی اس دہائی میں پاور پلانٹس چلانے والی آئی پی پیز اور تیل سپلائی کرنیوالی کمپنیوں کا کاروبار پروان چڑھ رہا تھا۔ اس دہائی کے اختتام تک بڑی سیاسی پارٹیوں نے وفاقی اقتدار کا مزہ چکھ لیا تھا اور پیداوار کے عوض آئی پی پیز ان ادوار میں اربوں روپے کی وصولیاں حاصل کر چکے تھے۔ چنانچہ کمپنیوں نے سیاسی جماعتوں میں اثر و رسوخ قائم کر لیا۔ اگرچہ 1998ء تک بھاشا ڈیم کی پلاننگ اور ڈیزائن کے مراحل نامکمل تھے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے نہایت عجلت میں بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے اپنے ہی دیرینہ مطالبے اور اسکی تعمیر کے شیڈول کو یکسر فراموش کر دیا۔ نجی پاور کمپنیاں اور ایندھن سپلائی کے ادارے اس دوران بغلیں بجا رہے تھے، کیوں کہ اب بھاشاڈیم کی تکمیل اور کسی بھی دوسرے ڈیم کی تعمیر کا آئندہ پچاس سال تک کوئی امکان موجود نہ تھا۔ انکا اندازہ اب تک درست جا رہا ہے، کیوں کہ آج سے ستائیس سال پہلے شروع کیا گیا بھاشاڈیم منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے، جہاں صرف 30فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ اس وقت تینوں بڑی پارٹیاں جو اپنے ادوارِ اقتدار میں بجلی کمپنیوں کو کھربوں روپے کی ادائیگیاں کر چکی ہیں، وہ مروت کے زیراثر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو تمام صوبوں کے اتفاق سے مشروط کر رہی ہیں اور عوام ہیں کہ آبی ذخائر کی عدم تعمیر کی وجہ سے ہر سال سیلابی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نامور امریکی صدر ابراہم لنکن نے کہا تھا: ’’سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ فلاحی مقصد کیلئے عوامی رائے عامہ کو ہموار کریں‘‘۔ لیکن افسوس! ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں آبی ذخائر کی تعمیر کے مسئلہ پر بات کرنے کو تیار نہیں اور قوم کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام اپنی سیاسی پارٹیوں اور اداروں سے ابھی تک مایوس نہیں ہیں، لیکن انکا سوال ہے کیا۔ہم ایسے آبی ذخائر پر مطمئن ہو سکتے ہیں، جن پر ماہرین کا اتفاق حاصل کر لیا جائے۔ جنہیں محض سیلابی ایام میں آبی سٹوریج کیلئےاستعمال کیا جا سکے۔ جو نئی نہروں سے منسلک نہ ہوں، ان ذخائر میں پانی کا بہاؤ اور نکاسی "Run of River" کے اُصولوں کے تحت ہو۔ جہاں طے شدہ فارمولا سے زائد پانی کو باہمی رضامندی سے ذخیرہ کیا جا سکے۔ ذخیرہ شدہ پانی کو بھی زیریں صوبوں کے مشورہ سے نظام الاوقات کے مطابق آزاد کیا جائے۔ ان ڈیموں سے بجلی کی پیداوار، ضرورت سے قطع نظر پانی کے اجراء کے دوران ہی مشروط ہو۔ سندھ، چناب، راوی، ستلج وغیرہ سب دریاؤں کے سیلابی پانیوں کو جاری فارمولا کا حصہ بنا دیا جائے۔ نئی بجلی یا آمدنی کو بھی صوبوں میں متناسب اُصول پر تقسیم کر دیا جائے۔اُمید ہے کہ سیاسی جماعتیں و ملکی ادارے، میثاقِ جمہوریت، اٹھارہویں اور چھبیسویں ترامیم کی طرح اب عوام کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں گے۔ انہیں سیلابی تباہ کاریوں سے نجات دلائیں گے۔ بقول داغ دہلوی ؎

درد ہو دل میں تو دوا کیجئے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجئے

تازہ ترین