مَیں نے ’الطاف بیتی‘ کی تیسری قسط مکمل کی تھی اور چوتھی قسط کیلئے واقعات اپنے ذہن میں تیار کر رہا تھا کہ ناگاہ ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ ماضی کے پیچیدہ اَور نیم وا وَاقعات گتھم گتھا ہونے لگے۔ کسے اِس فہرست میں شامل کیا جائے۔ ذہن بھی تو ایک عجب شے ہے جو اِنسانوں کو گمراہ کر سکتا ہےا ور سبق بھی سکھاتا رہتا ہے۔ ایک دم اِس جملے کا خیال آیا جو مَیں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ قائدِاعظم کے ایک دوست نے اُنہیں اہلیہ کی وفات کے بعد دوسری شادی کرنے کا مشورہ دِیا تھا۔ اُنہوں نے اُن پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا اگر تم رعنا لیاقت علی جیسی خوش اطوار اَور عالی شان دماغ والی خاتون تلاش کر لو، تو مَیں تمہاری تجویز پر ضرور غور کروں گا۔ قائدِاعظم نے اپنے دوست کی تجویز پر عمل نہیں کیا، تو اُنہیں پتہ چل گیا کہ تلاش کے باوجود رَعنا لیاقت علی جیسی خاتون نہیں ملی۔
ایک طرف رعنا لیاقت کا یہ مقام کہ اُن کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے قائدِاعظم بہت مداح تھے، جبکہ عوام کے اندر بدگمانیاں پائی جاتی تھیں۔ اُن کی ایک بڑی خوبی کا پتہ قائدِملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کی وفات کے بعد چلا۔ اُنہیں ہالینڈ میں سفیر مقرر کیا گیا۔ وہاں کی ملکہ سے اُن کے تعلقات اِس قدر دوستانہ ہو گئے کہ آپس میں شطرنج کھیلنا شروع ہو گئیں۔ اعتماد میں اِس قدر اِضافہ ہوا کہ شرطیں لگنے لگیں۔ ایک بار ملکہ نے اپنے محل کی شرط لگا دی اور وُہ ہار گئی۔ اُس نے وہ محل رعنا کے نام کر دیا اور رَعنا نے حکومتِ پاکستان کے نام۔ اُس محل میں آج تک پاکستان کا سفارت خانہ قائم ہے۔ اُن کے اِس اقدام سے پتہ چلا کہ اُنہیں اپنے وطن سے کس قدر محبت تھی۔
عوام کے اندر غلط فہمیاں اِس لیے پیدا ہوئیں کہ رعنا لیاقت مشرقی اقدار سے دور دِکھائی دیتی تھیں اور اُنہیں غرارہ پہننے کا بہت شوق تھا جو مسلمانوں کی نظر میں ہندوؤں اور بڑے گھروں کا پہناوا سمجھا جاتا تھا۔ یہی معاملہ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں پیش آیا۔
یہ ثابت کرنے کیلئے کہ پاکستان ایک روشن خیال ملک ہے، وہ خواتین کو آگے لانا چاہتی تھیں۔ اُنہوں نے خواتین کو بڑے پیمانے پر تعلیم دینے اور زندگی کے ہر شعبے میں بااختیار بنانے کیلئے ایک تنظیم آل پاکستان وُمینز ایسوسی ایشن (اپوا) قائم کی جس کے تحت اسکول اور کالج کھولے گئے، مگر خاتونِ اوّل کے ’جوشِ عمل‘ نے مذہبی طبقوں میں شدید ردِعمل پیدا کیا۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ لیاقت علی خاں، رعنا سے شادی کے بعد ہنی مون کیلئے انگلستان گئے جہاں قائدِاعظم محمد علی جناح، نہرو رِپورٹ کے بعد کانگریسی قیادت کی منافقت سے بددل ہو کر پریکٹس کر رہے تھے۔ اُن سے لیاقت اور رَعنا کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ اُن دونوں میاں بیوی کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ ہندوستان واپس چلے آئیں، کیونکہ مسلمانوں کی قیادت آپ ہی کر سکتے ہیں اور اِس حقیقت کا اظہار حکیم الامت علامہ اقبال بھی کئی بار کر چکے تھے۔
کئی روز قیام کے بعد جب لیاقت علی خاں اور رَعنا، قائدِاعظم سے ملنے گئے، تو اُن سے پھر اِسی خواہش کا اظہار کیا۔ اِس پر قائدِاعظم نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ مَیں تم دونوں کے جذبات سے بہت متاثر ہوں، مگر مَیں چاہتا ہوں کہ تم مسلم حلقوں میں زیادہ سے زیادہ باشعور لوگوں کی رائے معلوم کرو، مجھے تمہاری دیانت پر مکمل اعتماد ہے، چنانچہ لیاقت علی خاں نے تین ماہ بعد اُنہیں ایک رپورٹ ارسال کی جس میں تمام مرکزی شخصیتوں سے اُن کی رائے معلوم کی گئی تھی۔ اُن کی بڑی اکثریت نے محمد علی جناح کے قائدانہ کردار کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ تاریخ میں درج ہے اِس رپورٹ کی بنیاد پر قائدِاعظم نے واپس ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم و اِشاعت میں تمام تر توانائیوں کے ساتھ مسلم کاز کیلئے کام شروع کر دیا اور نوابزادہ لیاقت علی خاں کو تنظیم کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ یہ امر بھی بہت حیرت انگیز ہے کہ قراردادِ لاہور کا ڈرافٹ تیار کرنے میں رعنا لیاقت کا بھی ہاتھ تھا۔ قائدِاعظم کو اُن کی ڈرافٹنگ پر اِس قدر اِعتماد تھا کہ جو ڈرافٹ رعنا لیاقت نے منظور کیا تھا، وہی قائدِاعظم نے آخری ڈرافٹ کے طور پر پسند فرمایا تھا۔
ابھی مَیں ماضی کے واقعات سے دھینگامشتی کر رہا تھا کہ ناگاہ ایک نیا منظرنامہ اُبھرتا چلا گیا۔ یہ کوئی ستمبر کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ اُن دنوں میری طبیعت اِس قدر خراب تھی کہ فون اُٹھانے کی سکت بھی نہ تھی، لیکن پھر مجھے اپنی بات یاد آئی کہ ٹیلی فون کال کا جواب نہ دینا کال کرنے والے کی بےعزتی کے مترادف ہے۔ اُن دنوں مَیں گردن کے شدید درد میں مبتلا تھا۔ میرے بھتیجے طیب اعجاز ایک قابل ڈاکٹر کے ہمراہ گھر پہنچے اور اُن کی کوششوں سے فوری ریلیف تو مل گیا، مگر گردن اور گھٹنوں کا درد تکلیف کا باعث بنا رہا۔ اپنے ہی نظریے پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے فون اُٹھایا۔ دوسری طرف ایک خاتون بات کر رہی تھیں۔ اُنہوں نے غالباً انگریزی میں اپنا اور اَپنی تنظیم کا تعارف کروایا۔ نام تکلیف کے باعث میرے سر سےگزر گیا۔ اُنہوں نے پہلے میرا حال پوچھا جو مَیں نے مروت میں اچھا بتا دیا۔ پھر اُنہوں نے اپنی فلاحی تنظیم کا تعارف کروایا اور غریب مریضوں کا نہایت اثرانگیز نقشہ کھینچ کر مجھ سے عطیہ دینے کیلئے کہا۔
اُسی وقت مجھے بتا دینا چاہیے تھا کہ مَیں خود ایک عذاب میں مبتلا ہوں، مگر سوچا محترمہ نے ایک صحافی سے اِس لیے رابطہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’جنگ‘ کے کالم نگار ہیں اور یقیناً مالدار آدمی ہوں گے، چنانچہ بھرم رکھنے کیلئے کہہ دیا کہ مَیں اگلے ہفتے کچھ مدد کرنے کے قابل ہو جاؤں گا۔ اب یہ خیال آ رہا ہے کہ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد وہ فون کریں گی، تو اُس وقت میرا کیا حال ہو گا۔ اگر مَیں اصل حقیقت بتاتا ہوں، تو مجھ پر یہ الزام آ سکتا ہے کہ امداد نہ دینے کیلئے سینئر صحافی نے جھوٹی کہانی گھڑ لی ہے۔ اِس نئی آپ بیتی سے یہ سبق ملا کہ سچ کا اظہار بروقت کر دینا چاہیے۔