ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے پیش کردہ امن منصوبے کو ایک جبری حل قرار دے دیا۔
انہوں نے ایک بیان میں اس منصوبے کے خدوخال کو 8 مختلف نکات کی صورت میں مختصراً بیان کرتے ہوئے اس پر اپنی رائے دی ہے۔
انہوں نے ’ٹرمپ کی تجاویز‘ کے عنوان کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ
1- فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کی 20 نکاتی تجویز حماس کو ( سفارتی ) پیش کش نہیں ہے۔
2- یہ ظاہر (میں ) ایک دھمکی ہے۔
3- چار دن کے اندر تجویز کو قبول کریں ورنہ نسل کشی بند نہیں کی جائے گی۔ (بلکہ) یہ بدتر ہو جائے گی۔
4- یہ تجویز ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ مل کر تیار کی تھی۔ یہ اسرائیل کے لیے قابل قبول ہے کیونکہ اسے ان کے وزیراعظم نے تیار کیا ہے۔
5- نیتن یاہو کی طرح ٹرمپ بھی غزہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کو ( ہر صورت ) ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔
6- دونوں سازش کرنے والے حماس سے کس طرح ہتھیار ڈالنے کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ اس کا حل دماغ کو (ہلا دینے) والا ہے۔ وہ ( فلسطینی) اسرائیلی بمباری سے 60 ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جو تجویز کر رہے ہیں وہ (اب تک ہونے والے) جانوں کے ضیاع اور غزہ کی مکمل تباہی کو (چھپا کر) برباد کرنا ہے۔ ( تاکہ) ان کی قربانی رائیگاں چلی جائے۔
7- صدر ٹرمپ امن بنانے والا نہیں ہے۔ وہ ہائی ٹیرف، پابندیوں وغیرہ کی دھمکیوں کا استعمال کرتا ہے اور فریقین کو لڑائی روکنے پر مجبور کرنے کے لیے ہر قسم کے مطالبات کرتا ہے لیکن وہ ( اب تک) ناکام رہا ہے۔ یوکرین اور روس میں قتل و غارت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ (اسی طرح) فلسطینیوں کی نسل کشی (بھی) جاری رہے گی۔
8- اگر حماس ان تجاویز کو مسترد کر دیتا ہے تو مجھے حیرت نہیں ہوگی۔ (کہ) نسل کشی جاری رہے گی، زیادہ مضبوطی سے (اور اب) امریکا کی مدد سے۔