ماحولیاتی بحران سچ مچ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں، دونوں موسم ہی سخت سے سخت تر ہوتے جارہے ہیں۔ امریکا میں شدید سے شدید تر سمندری طوفانوں کا آنا اب ایک متوقع اور بار بار ہونے والا واقعہ بنتا جارہا ہے۔ موسم سرما میں امریکا جیسے سرد ملک میں گرمی کی حدت محسوس کی جارہی ہے، جبکہ پاکستان کے کئی علاقوں میں شدید سردی اور گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔
شمالی نصف کرہ ارض میں ’’ہیٹ ویوز‘‘ شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں قحط سالی اب معمول کی بات بنتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آئے ہفتے ہمیں دنیا بھر کے مختلف حصوں سے زمین بوس ہوئی عمارتوں، اور زیرِ آب ایئرپورٹس اور سڑکوں کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ تمام تر صورتِ حال اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا بھر کا انفرااسٹرکچر اس قدر مضبوط اور لچکدار نہیں ہے کہ وہ شدید یا غیرمتوقع موسمی اثرات کو برداشت کرسکے۔ خصوصی طور پر درمیانی آمدنی والے ممالک موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
اگر بات معاشی اعدادوشمار میں کی جائے تو موسمیاتی تبدیلی کی قیمت ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ کمپنیوں کا اندازہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث انھیں اثاثہ جات کی مد میں 250ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ خدشہ ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں یہ نقصان ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا، جس میں 80فیصد ایکسپوژر مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے ان پریشان کن اثرات کے پیشِ نظر، ابھی تک صرف گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو روکنے پر زور دیا جارہا ہے، جبکہ اس بات پر ابھی تک توجہ نہیں دی جارہی کہ معاشرے کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے کس طرح بچانا ہے۔
ماہرین کے مطابق، اگر ہم نے ابھی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا آغاز نہ کیا تو آنے والے عشروں میں ہم اپنی کمیونٹیز کو سیلابوں، ہیٹ ویوز، سائیکلون، جنگلوں کو لگنے والی آگ اور دیگر شدید موسمیاتی تغیرسے محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔
انفرااسٹرکچر کے معاملے میں، سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے سرمایہ کاری کے فیصلوں میں ماحولیاتی خطرات کی قیمت کو کس طرح شامل کرتے ہیں۔ یہ ناصرف ایک عالمی مسئلہ ہے بلکہ دنیا بھر کی مارکیٹوں کے سسٹم کی بھی ناکامی ہے۔ مزید برآں، ماحولیات سے جڑے مسائل کو سمجھنے اور ان میں شفافیت کی بھی کمی ہے۔
سرمایہ کاروں، قرض خواہوں، انشورنس اداروں اور ریٹنگ ایجنسیوں کو باخبر فیصلے کرنے کے لیے متذکرہ بالا معلومات کی دستیابی انتہائی ضروری ہے۔ ماحولیاتی تغیر کو برداشت کرنے والا انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے تھوڑی سی اضافی پیشگی سرمایہ کاری (جسے ہم اخراجات میں شمار کرتے ہیں)کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم طویل مدت میں، پائیدار انفرااسٹرکچر کی صورت میں اس کا منافع کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، تیسری دنیا کے ممالک میں تعمیر ہونے والی کثیرالمنزلہ عمارتوں کی انجنیئرنگ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدِ نظر رکھ کر کی جائے اور اس کی تعمیر ایک Low-carbonاسٹرکچرکے طور پر کی جائے تو اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ یہ عمارتیں اگلی صدی میں بھی کارآمد ثابت ہوسکیں گی۔
دنیا کو اس طرح کے باخبر فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے، ایک بڑا مسئلہ ان آلات اور تجربات کی دستیابی کی کمی ہے، جس کی بنیاد پر ہم یہ جان سکیں کہ ایسا انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے ہمیں کتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔
اسی ضرورت کے پیشِ نظر گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کے ’کلائمیٹ ایکشن سمِٹ‘ کے موقع پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحادی فنڈ قائم کیا گیا ہے، جس میں 34کمپنیوں، اداروں اور ملکوں کی نمائندگی ہے۔ 5ٹریلین ڈالر کے اثاثہ جات کے ساتھ اسے ورلڈ اکنامک فورم، برطانیہ اور جمائیکا کی حکومت کی معاونت حاصل ہے۔
نجی شعبے کی سربراہی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے، جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والا انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے عملی حل تلاش کیا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ 2030تک ہر سال دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر کی ترقی پر 90ٹریلین ڈالر خرچ کیے جائیں گے، تاہم سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس میں ایسے انفرااسٹرکچر کا حصہ کتنا ہوگا جو ماحولیاتی سختیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا؟
پائیدار انفرااسٹرکچر میں ضرورت سے کم سرمایہ کاری کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ماحولیاتی خطرات کے معیارات (کلائمیٹ رِسک اسٹینڈرڈز) ہی دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم اچھی بات یہ ہورہی ہے کہ تعمیرات کے شعبے میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے، مستند اعدادوشمار کی دستیابی بھی بہتر ہوتی جارہی ہے، جس کی روشنی میں مقامی سطح پر ماحولیاتی خطرات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یقیناً، ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کو مکمل طور پر روک نہیں سکتے لیکن پائیدارانفرااسٹرکچر تعمیر کرکے ہم خود کو اس کے اثرات سے ضرور محفوظ رکھ سکتے ہیں۔