جانور پالنا بڑی مشقت اور ذمہ داری کا کام ہے لیکن یہ بعض اوقات دو دِلوں کو ملانے کاباعث بھی بن جاتاہے جیسا کہ پڑوسی ملک میں ایک لڑکے لڑکی کو اسلئے ایک دوسرے سے محبت ہوگئی کیونکہ دونوں جانوروں سے محبت کرتے تھے۔اس ’جانورانہ محبت‘ میں دراڑ تب آئی جب بیوی نے شوہرسے شکایت کی کہ تمہارا کتا میری بلی کو ’ہراساں‘ کرتاہے ۔ شوہرنے بھی شکوہ کیا کہ تمہاری بلی مچھلیوں والے شیشے کے جار کے پاس منڈلاتی رہتی ہے۔لڑائی بڑھ گئی اور بالآخردونوں میں طلاق ہوگئی۔کتے بلی کا کیا بنا؟اس بارے میں ابھی تک مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔آپ کبھی کبوتر بازوں کو دیکھئے گا، ان کے پاس اپنے کھانے کے لیے پیسے ہوں نہ ہوں کبوتروں کے دانے کا بندوبست کہیں نہ کہیں سے کرہی لیتے ہیں۔پالتو کتوں سے محبت کے تو کئی قصے مشہور ہیں۔ ایک میاں بیوی کی شادی کو پندرہ سال گزر گئے، دونوں ایک دوسرے سے بیزار تھے۔ایک دن شوہر نے بیوی سے کہا کہ تمہیں یاد ہے ہماری پہلی ملاقات کیسے ہوئی تھی۔ بیوی نے سپاٹ لہجے میں کہا’ہاں! میں اپنے کتے کے ساتھ پارک میں آتی تھی، تمہیں بھی وہ کتا بہت اچھا لگتا تھا، یوں ہماری ملاقاتیں بڑھیں اور پھر شادی ہوگئی۔‘شوہر نے سرہلایا’بالکل ٹھیک! لیکن بیگم اب تو وہ کتا مرچکا ہے تو کیااب ہمیں الگ نہیں ہوجانا چاہیے؟‘۔بیوی نے گہری سانس لی’ٹھیک کہتے ہو لیکن میں مجبور ہوں اسلئے تم سے علیحدہ نہیں ہوسکتی، تم میرے پیارے کتے کی آخری نشانی ہو‘۔
٭٭٭٭
پچھلے دنوں فیس بک پر اپیل دیکھی۔کسی نے لکھا کہ میری جاننے والی ایک غریب عورت نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے لیکن مالی وسائل نہیں لہٰذا آپ سب مدد کریں۔ نیچے ایک صاحب نے کمنٹ کیاکہ اگر بچی کی شادی بہترین شادی ہال میں ہو جائے، کھانا بھی بہترین ہو، مناسب جہیزکا بندوبست بھی ہوجائے اور اچھی خاصی سلامی بھی مل جائے تو کیسا رہے گا؟۔ اپیل کرنیوالے صاحب نے نعرہ مستانہ لگایا، بہت سی دعائیں دیں اور ساتھ ہی اکاؤنٹ نمبر دے دیا کہ جملہ اخراجات کیلئے رقم اس اکاؤنٹ میں بھیج دیں۔ کمنٹ کرنیوالے صاحب نے جواب دیا کہ یہ سب سرکاری طور پر ہوگا، آپ کو اس شادی پروگرام کا لنک بھیج دیا ہے فوری طور پر بچی کا نام وہاں رجسٹر ڈ کروا دیں۔اتنا کہنے کی دیرتھی کہ اپیل کرنیوالے کا پارہ چڑھ گیا۔انہوں نے بے نقط سنائیں اور فرمایا’آپ چاہتے ہیں کہ بچی کے گھر والوں کی انا مجروح ہوجائے؟‘۔کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ سرکاری طور پرشادی کاانتظام ہونے سے بچی کے گھر والوں کی انا مجروح ہوجائے گی لیکن فیس بکی امداد ملنے سے اُنہیں دلی تسکین کیسے ملے گی؟قصہ مختصر، آپ کسی درگاہ پرجائیں تو وہاں چندہ باکس کے اوپر ایک عبارت نمایاں طور پرلکھی ہوئی ملتی ہے’چندہ اپنے ہاتھ سے باکس میں ڈالیں‘۔
٭٭٭٭
گزشتہ دنوں ایک پڑھے لکھے دوست نے پوچھا کہ ’فلسطین کے بچے کہاں سے مل رہے ہیں؟‘۔میں گڑبڑا گیا۔ سوال بڑا عجیب تھا۔اپنی ناقص عقل کا اعتراف کیا اور پوچھا کہ اس کا مطلب کیا؟ انہوں نے پورے یقین سے فرمایا کہ انہیں پتا چلاہے کہ لاہور میں سرکاری طور پر غزہ کے یتیم بچے لائے گئے ہیں جو اولاد کے خواہشمندلوگوں کودیے جارہے ہیں۔میں نےپوچھا یہ بات آپ کوکیسے پتا چلی؟ کہنے لگے ہمارے ایک رشتہ دار بتا رہے تھے۔میں نے کہا تو اُنہی سے ایڈریس بھی پوچھ لیتے۔ دو گھنٹے کی سرکھپائی کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ رشتہ دار نے بالکل ٹھیک اطلاع دی ہے۔ یہ رویہ ہمارے ہاں عام ہے۔ چونکہ کریٹیکل تھنکنگ (تنقیدی سوچ) کبھی ہمارے نصاب یا سوچ کا حصہ نہیں رہی لہٰذا ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ کسی بات کی تصدیق کیلئے بنیادی سوالات کیا کرنے چاہئیں۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ فلاں فلاں نے بتایا ہے۔یہ فلاں فلاں اکثر صورتوں میں کوئی قابل اعتبار بندہ ہوتا ہے لیکن تحقیق سے کوسوں دور۔ یہ بھی واٹس ایپ کے فارورڈنگ میسجز پر بھروسہ کرتے ہوئے بات آگے سے آگے پھیلاتا چلا جاتا ہے۔
٭٭٭٭
آج کل شاعری کی کتابیں اتنی زیادہ شائع ہورہی ہیں کہ لگتا ہے شاعروں کیلئے بجلی کا بل معاف کردیا گیاہے۔جوکتاب چھپوانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سوشل میڈیا پرسرگرم ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہی پتا چلتا ہے کہ غالب، اقبال، فیض اور فراز کی بہت سی شاعری ابھی محققین کی نظرسے اوجھل ہے۔ مثلاًپچھلے دنوں ہولناک انکشاف ہوا کہ یہ بھی شعر ہے اور اقبال کاہے’اے اقبال کسی کی بے وفائی کا کیا گلہ کریں، زندگی تو ویسے بھی ختم ہورہی ہے‘۔نقادوں پرصد افسوس کہ انہوں نے آج تک ہمیں ’اے اقبال‘ والے شعروں سے محروم رکھا۔میں نے نوٹ کیاہے مون سون میں شاعروں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتاہے لیکن اس ہجوم میں کبھی کبھار کوئی ایسی آواز بھی سننے کو مل جاتی ہے جو سب سے مختلف، سب سے منفرد ہوتی ہے۔افتخار فلک کاظمی کا تعلق لیہ سے ہے۔ان کی نئی کتاب’عشق رقاص‘ پڑھی تو دل و دماغ معطر ہوگئے۔ہر لحاظ سے نیا پن، ہرزاویے سے نئی بنت اور ہر اعتبار سے نئے خیالات پر مشتمل یہ شاعری ہماری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔
میں چار دنوں سے اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ہرشعر میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتا ہے۔ذرا نمونہ ملاحظہ کیجئے۔’خواب رخصت نہیں کروں گا میں، ایسی غفلت نہیں کروں گا میں۔کام سارے کروں گا مرضی کے، بس محبت نہیں کروں گا میں۔اور پھر ایک جگہ لکھتے ہیں ’سال کا پہلا مہینہ کھا گیا، میری خوشیاں ایک بھوکاکھا گیا۔آدمی کو نظریاتی طور پر، آدمی ہونے کا دعویٰ کھا گیا۔اِس قدر بدلا ہے اُس کو عشق نے، یار! سچ مچ میں بھی دھوکاکھا گیا۔‘