• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین !اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ دہشتگردی، بھارت اور اسرائیل کے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم اور روس یوکرائن جنگ کے باعث انسانی بقا کیلئے بڑھتے خطرات کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ نمائندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ اپنے رکن بعض بڑے ممالک کے ہاتھوں یرغمال بن کر اپنے پلیٹ فارم پر علاقائی اور عالمی تنازعات کے یو این چارٹر کے مطابق حل کیلئے کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ جسکے نتیجے میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا فرسودہ فلسفہ غالب ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس میں یقینی طور پر توسیع پسندانہ عزائم رکھنے اور اپنے ہتھیار بیچنے کیلئے ایک دوسرے سے متحارب ممالک میں جنگی جنون بڑھانے والے ممالک کا زیادہ عمل دخل ہے۔ وہ خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ عالمی جنگ کے خطرے کی تلوار لٹکتی نظر آتی رہے۔ کم و بیش یہی ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب پیدا کرتے ہیں جس سے بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک آئے روز کی طوفانی بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور اسکے نتیجے میں آنیوالے سیلابوں سے زیادہ نقصانات اٹھا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زلزلوں کا دورانیہ اور شدت بھی بڑھ رہی ہے اور انکے نقصانات کا بھی زیادہ تر کم وسائل والے ممالک کو ہی سامنا ہے۔ اسی طرح امریکہ، بھارت، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک کو ہی سامنا ہے جو اپنے تحفظ و دفاع کیلئے اپنا دفاعی حصار مضبوط بنانے کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں اور ان کے جو وسائل عوام کی خوشحالی اور ملک میں غربت و افلاس کے خاتمے کیلئے بروئے کار لائے جانے چاہئیں وہ دفاعی حصار مضبوط بنانے پر خرچ ہو جاتے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلیوں اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے باعث پسماندہ ممالک میں تباہی کی نوبت لا رہے ہیں وہ انکی معیشت کی بحالی میں معاونت کیلئے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے پر بھی آمادہ نہیں اور اس کیلئے یو این سیکرٹری جنرل کی کوششیں اور بار بار کی اپیل بھی اکارت جارہی ہے جو اس عالمی ادارے کے بے اثر ہونے کا ہی ثبوت ہے۔ اس صورتحال میں یو این جنرل اسمبلی کا 80 واں سالانہ اجلاس زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی چیلنج کرتے ہوئے اسے نقصان پہنچانے کی نیت سے اس پر فضائی حملے کئے جن میں بے شک اسے پاکستان کی غیور و بہادر افواج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی مگر اس کی جنونیت نے پاکستان اور پورے خطے کے امن کو تو مستقل طور پر داؤ پر لگا دیا ہے۔ اس تناظر میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے توقعات وابستہ ہوئیں کہ اس میں پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشمیر کے تنازع کا کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش ہوگی تاکہ علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت مل سکے۔ اسی طرح اسرائیل نے غزہ میں گزشتہ2سال سے زیادہ عرصہ سے فلسطینیوں کے خلاف وحشت و ظلم کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے مسلم ممالک کو بھی اپنی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کی لپیٹ میں لے رہا ہے جس سے عالمی ایٹمی جنگ کے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے تو جنرل اسمبلی کا 80 واں سالانہ اجلاس اس سنگین مسئلہ کے کسی پائیدار حل کا بھی کوئی راستہ نکال پائے گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سدباب کیلئے بھی کوئی لائن آف ایکشن وضع کرے گا۔ انہی حالات میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے ملک میں دہشتگردی کے خاتمہ، موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے اور بھارتی جنگی جنون کے مقابل ملک کے دفاع کے تقاضے نبھانے کا بیڑہ اٹھایا جس میں وہ بھارتی ہزیمت کی صورت میں سرخرو ہوئے ہیں تو علاقائی اور عالمی امن یقینی بنانے کیلئے اقوام عالم کی توجہ بھی پاکستان پر مرکوز ہوگئی ہے۔ اسی تناظر میں حالیہ بیرونی دوروں کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو چین، سعودی عرب، قطر، برطانیہ اور امریکہ میں اعلیٰ ترین سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب کےدوران دنیا کو درپیش تمام اہم مسائل اور علاقائی و عالمی امن کیلئے پاکستان کے موثر کردار کا مدلل انداز میں احاطہ کیا اور ان تمام ایشوز پر پاکستان کا موقف اجاگر کیا جو ان کی فہم و بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں بھارتی جنونیت اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم بھی بے نقاب کئے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اقوام متحدہ کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ علاقائی و عالمی امن مستقل طور پر قائم کرنے کی ضمانت بھی بنے گا۔وزیراعظم نے چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ایران، متحدہ عرب امارات اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت پاکستان کے تمام دوستوں اور شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نازک وقت میں پاکستان کی سفارتی حمایت کی۔

دوسری جانب روس، چین، پاکستان اور ایران نے افغان حکومت سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی چوتھی چار فریقی میٹنگ نیویارک میں روسی فیڈریشن کی دعوت پر منعقد کی۔ایک مشترکہ بیان میں چاروں ممالک نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان کو ایک آزاد، متحد اور مستحکم ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو دہشت گردی، جنگ اور منشیات سے پاک ہو۔ پاکستان کی جانب سے بارہا یہ معاملہ اٹھایا گیا اور سلجھانے کی کوشش کی گئی لیکن طالبان حکومت تعاون پر تیار نظر نہیں آتی۔ آج کی طالبان حکومت اور وہاں پر پاکستان سے بھاگ کر جانیوالے ٹی ٹی پی کے خوارج بھارت کی پراکسی بنے ہوئے ہیں۔ اب پاکستان نے یہ معاملہ دیگر ممالک کے سامنے رکھا ہے اور انہیں چاہئے کہ وہ افغانستان کو راہِ راست پر آنے کی ترغیب دیں۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو پابندیوں کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین