صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی تیاری میں بظاہر سعودی عرب، قطر، امارات، بحرین اور پاکستان سمیت آٹھ اہم مسلم ملکوں کی تجاویز بھی شامل کی گئی تھیں۔ وزیر اعظم پاکستان اس منصوبے سے اتنے خوش گمان تھے کہ حماس کا مؤقف سامنے آنے سے پہلے ہی انہوں نے اس پر اپنے مکمل اطمینان کا اعلان کردیاتھا ۔ لیکن نیتن یاہو کی فرمائش پر کی گئی یکطرفہ تبدیلیوں کے بعد یہ امن منصوبہ اتنا متنازع ہوگیا کہ وزیر خارجہ اسحق ڈار کو پارلیمنٹ میں وضاحت کرنا پڑی کہ یہ وہ منصوبہ نہیں جس میں ہماری تجاویز شامل تھیں۔عرب ممالک نے بھی اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار شروع کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ حماس کی جانب سے اس پر سخت منفی ردعمل سامنے آئے گا۔ صدر ٹرمپ بھی یہی سمجھ رہے تھے جسکی وجہ سے انہوں نے جمعے کی صبح اعلان کیا کہ اگر اتوار کی شام تک حماس نے منصوبے پر رضامندی ظاہر نہ کی تو حماس کے خلاف ایسا قیامت خیز طوفان برپا کیا جائے گا جس کا تصور بھی کسی کیلئے ممکن نہیں۔ تاہم اسی روز حماس نے انتہائی غیر متوقع طور پر صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے کو جزوی طور پر قبول کرنے اور عدم اتفاق والے نکات پر مذاکرات کیلئے آمادگی کا اعلان کردیا۔
حماس کے اس اقدام کا پوری دنیا میں پرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ حماس نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ وہ عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ گروپ، صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ فارمولے کے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرتا ہے بشرطیکہ میدان میں اس کیلئے عملی حالات موجود ہوں۔حماس نے یہ بھی کہا کہ وہ فوری طور پر ثالثوں کے توسط سے مذاکرات میں شامل ہونےکیلئے تیار ہے تاکہ رہائی کی تفصیلات پر بات کی جا سکے۔ حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے ’مڈل ایسٹ آئی‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے قومی طور پر اتفاق کیا ہے کہ غزہ کا انتظام غیر جانبدار افراد کے سپرد کیا جائے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو، عوام کے مستقبل کا فیصلہ ایک قومی مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ صرف حماس نہیں کر سکتی‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ترجیح جنگ اور قتل عام کو روکنا ہے اور اسی نقطہ نظر سے ہم نے منصوبے کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے پہلے غیر مسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے مستقبل سے متعلق امور پر جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر بات ہونی چاہیے، جس کا حماس بھی حصہ ہوگی جبکہ گروپ اپنے اور اپنے ہتھیاروں سے متعلق تمام معاملات پر مذاکرات کرے گا۔
اسرائیل جیسی سفاک اور جابر ریاست سے دو برس کی خوں ریز جنگ میں بے پناہ قربانیوں اور صدر ٹرمپ و نیتن یاہو کی دھمکیوں کے باوجود حماس کا یہ جواب جس جرأت مندی، عزم صمیم، خودداری، وقار اور خوداعتمادی کا آئینہ دار ہے، وہ اس کے ہر لفظ سے عیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کی جانب سے منصوبے کے کئی بنیادی نکات مسترد کیے جانے کے باوجود صدر ٹرمپ نے غیظ و غضب کے اظہار کے بجائے اس کا بڑی گرم جوشی سے فوری خیرمقدم کیا اور جمعے کی رات سوشل میڈیا پراعلان کیا کہ فلسطینی گروپ ’حماس‘ نے بیس نکاتی امن منصوبے پر ’زیادہ تر مثبت‘ ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تل ابیب سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے بیان کی کاپی ’ٹروتھ سوشل‘ پر شیئر کی جس میں حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط کا کوئی ذکر نہیں تھا۔اس کے بعد انہوںنے لکھا کہ ’حماس کے حالیہ بیان کی بنیاد پر، میرا یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کیلئے تیار ہیں، اسرائیل کو چاہیے کہ فوراً غزہ پر بمباری بند کرے تاکہ ہم یرغمالیوں کو جلد رہا کرا سکیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طویل عرصے سے درکار امن کا موقع ہے۔
حماس نے تنازع اسرائیل و فلسطین کے معاملے میں عرب اور مسلم حکومتوں کی مکمل سردمہری اور اپنے منصفانہ مؤقف کی خاطر بے پناہ نقصان کے باوجود محاذ پر ڈٹے رہ کر جنگ اور سیاست کی بساط پر جواہم مقام حاصل کرلیا ہے، مکمل امریکی پشت پناہی کی حامل صہیونی ریاست کی اس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات پر آمادگی اس کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق یہ مذاکرات اتوار اور پیر کو ہوں گے ، ممکن ہے کہ ان کے نتیجے میں وقتی طور پر حالات کچھ بہتر ہوجائیں، لیکن گریٹر اسرائیل کا جو منصوبہ صہیونی تحریک کا مطلوب و مقصود ہے، اس کی بنا پر فلسطین ہی نہیں پورا شرق ِاوسط آنے والے دنوں میں ایک بڑی جنگ کا میدان بنتا نظر آتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے دفاعی معاہدے اور دیگر عرب ریاستوں کی اس میں شمولیت کے امکان نے پاکستان کو براہ راست شرق اوسط کے معاملات میں شریک کردیا ہے۔ لہٰذا بھارت کی ملی بھگت سے اسرائیل کی پاکستان کے خلاف کسی سنگین جارحیت کی کوشش عین ممکن ہے۔ بھارتی وزیر دفاع اور عسکری قیادت کی پاکستان کو تباہ و برباد کردینے کی تازہ دھمکیاں بظاہر اسی ملی بھگت کا نتیجہ ہیں۔
ان حالات میں بے پناہ وسائل سے مالا مال پوری مسلم دنیا کو اپنے مستحکم دفاع ، کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے نیزعلم وحکمت، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تیررفتار پیش قدمی کی خاطر مشترکہ کاوشیں کرنا ہوں گی ۔ پاک سعودی دفاعی معاہدے میں ترکی، ایران اور دیگر عرب و مسلم ممالک کی شمولیت سے ایسا دفاعی اتحاد قائم ہوسکتا ہے جو پوری مسلم دنیا کی سلامتی کا ضامن ہو اور گریٹر اسرائیل اور بھارتی بالادستی کے خوابوں کو خاک میں ملادے۔