• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے 25ستمبر کو 18 بینکوں سے 1225 ارب روپے کے قرضوں کے معاہدے کئے۔ یہ قرضے Kibor مائنس، 9 فیصد شرح سود پر لئے گئے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی فنانسنگ ڈیل ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے بجلی صارفین سے اضافی 3.23روپے فی یونٹ ڈیٹ سروس سرچارج (DSS) کی مد میں 6 سال تک وصول کیا جائے گا۔ قرضوں کے معاہدے میں پاکستان کے تمام بڑے بینک شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سرکولر ڈیٹ فنانسنگ کی سہولت کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے جس سے گردشی قرضوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے اس کا کریڈٹ وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس کو دیا ہے جس نے آئی پی پیز کے ساتھ کامیاب مذاکرات کئے۔ اگلا مرحلہ ڈسکوز کی نجکاری کا ہے تاکہ ان عوامل، جو سرکولر ڈیٹ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، پر قابو پایا جاسکے جن میں لائن لاسز ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے گردشی قرضے، جو جی ڈی پی کا 4 فیصد 2470 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے، کو 780 ارب روپے کی مالی گنجائش سے کم کرکے جولائی 2025 میں 1661 ارب روپے تک لایا گیا تھا جسکی ادائیگی بینکوں سے لئے گئے 1225 ارب روپے کے قرضوں سے کی جائے گی۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق یہ منصوبہ آئندہ 6 سال سے کم عرصے میں گردشی قرضے ختم کرکے صارفین کو 350ارب روپے کی بچت فراہم کرے گا جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ گردشی قرضوں کے خاتمے کیلئے گزشتہ ایک سال سے کوششیں کررہے تھے۔ میں اس منصوبے کا کریڈٹ وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد علی، اسٹیٹ بینک اور بینکرز ایسوسی ایشن کو دیتا ہوں جنکے تعاون سے یہ معاہدے ممکن ہوئے جس سے سرکولر ڈیٹ کے بوجھ میں کمی ہوسکے گی جبکہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے بجلی صارفین سے3.23روپے فی یونٹ کی اضافی وصولی کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔

بجلی اور گیس کی پیداواری لاگت اور اسکی سپلائی سے وصولی کے فرق کو گردشی قرضے کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بجلی کی ایک یونٹ کی فرضی پیداواری لاگت اگر 35روپے ہے اور اس سے 25 روپے وصول ہورہے ہیں تو 10روپے کا خسارہ گردشی قرضے بنارہا ہے۔ ان گردشی قرضوں میں چین کے آئی پی پیز کے واجبات بھی شامل ہیں، پاکستان ان واجبات کی ادائیگیوں کی مدت بڑھانا چاہتاہے۔ چینی آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی کا معاملہ حالیہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے 14ویں مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس جسکی سربراہی وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کی، ایجنڈے میں شامل تھا۔ پاکستان کے پاور اور گیس سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر 4000ارب روپے تک پہنچ گئے تھے جس میں پاور سیکٹر کے 2500ارب روپے اور تیل اور گیس کے 1500 ارب روپے شامل تھے جسکی عدم ادائیگی کی وجہ سے تیل اور گیس سپلائی کرنیوالی کمپنیاں اور آئل ریفائنریز PSO، IPPs، OGDC، PPL، SSGC، SNGC شدید مالی مشکلات کا شکار تھیں اور فرنس آئل اور LNG کی امپورٹ کیلئے حکومت کے پاس ڈالر نہیں تھے۔ 2006ء تک ہمارے گردشی قرضے حد میں تھے لیکن جب IPPs سے مہنگی بجلی کی پیداوار 30فیصد سے زیادہ بڑھ گئی تو گردشی قرضوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا مگر کسی حکومت نے 4000ارب روپے کے گردشی قرضوں کے ’’ٹائم بم‘‘ کے بارے میں سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اطلاعات کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے آئل اور گیس کے 1500 ارب روپے کے گردشی قرضوں میں سے 850 ارب روپے حکومتی گیس کمپنیوں (PSEs) کے ڈیوڈنڈ یعنی منافع سے ایڈجسٹ کرنے اور بقایا 650 ارب روپے گیس کی قیمت بڑھاکر گردشی قرضے ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی جو مسترد کردی گئی جسکے بعد بینکوں سے 1225 ارب روپے کے قرضوں کے معاہدے کئے گئے ہیں تاکہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے۔ میرے نزدیک پاور سیکٹر میں ریفارمز لانے اور بدانتظامیوں کو دور کرنے کی قیمت اگر صارف سے وصول کی جائے تو یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پاور سیکٹر میں گڈ گورننس سے نقصانات کو کنٹرول کرے تاکہ صارفین کو مقابلاتی نرخوں پر بجلی سپلائی کی جاسکے۔ صنعتی سیکٹر کا مطالبہ ہے کہ اسے 8 یا 9سینٹ فی کلو واٹ پر بجلی فراہم کی جائے۔ حکومت اس وقت گھریلو صارفین کو رعایتی ٹیرف کی مد میں 74ارب روپے کی سبسڈی فراہم کررہی ہے جس کا بوجھ صنعتوں پر ڈالا گیا ہے۔ اس سبسڈی کو کراس سبسڈی کہا جاتا ہے جو صنعتوں کے ٹیرف میں اضافہ کرتی ہے اور ایک ناکام ماڈل ہے۔ مقابلاتی سکت کھونے سے ہماری ایکسپورٹس متاثر ہونگی۔ حکومت کو چاہئے کہ سرکولر ڈیٹ کی ادائیگیوں کے بعد وہ تمام عوامل ،جو گردشی قرضے پیدا کرتے ہیں، کو سختی سے کنٹرو ل کرئے تاکہ گردشی قرضوں کا ٹائم بم دوبارہ ملکی معیشت کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

تازہ ترین