• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیرکی دیگرروایات کی طرح یہ بھی قدیمی روایت ہے کہ کسی کو نوکری سے نکال دیا جائے تووہ باہر جاکر پہلابیان یہی دیتا ہے کہ ’میں استعفیٰ منہ پرمار آیاہوں‘۔دوسری دھمکی یہ ہوتی ہے کہ’اب میں اِن کوبتاؤں گا کہ میں کیا ہوں‘۔میرے ایک جاننے والے گاڑیوں کے شوروم میں منیجرتھے۔ کسی مالی گڑبڑ میں ملوث پائے گئے تومالک نے چھٹی کر ا دی۔ موصوف نے اسی دن سب کومیسج کرکے بتایا کہ میں نے نوکری پرلات مار دی ہے اوراب اپناشوروم بناکردکھاؤں گا۔مجھے لگتا تھا جب ان کا غبار اتر جائے گاتوپھرسے کسی نوکری پر لگ جائیں گے لیکن حیرت ہوئی کہ بعینہ ایسا ہی ہوا۔محترم آج کل خالص سرسوں کے تیل والا اچار سپلائی کرتے ہیں۔فلمیں اور موٹیویشنل اسپیکروں کو سن سن کر سب کولگتاہے کہ ان جیسا چیتاکوئی نہیں لیکن چار دن بعد یہ سارا جوش اترجاتا ہے۔

جولوگ ازلی کاہل ہیں انہیں کسی موٹیویشنل اسپیکر کی جادو بھری تقریر سے جنبش مدُھر تو ہوسکتی ہے تحریک نہیں۔کامیاب لوگ موٹیویشنل تقریر کرتے ہیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔چونکہ یہ کامیاب ہوتے ہیں لہٰذا بولنا بھی آجاتاہے اور کہانی سنانا بھی۔پھر یہ دوسروں کو اپنی محنت اور عظمت کی داستانیں سنا کر مزید گہرے کنویں میں پھینک دیتے ہیں۔لوگوں کا تحت الشعور ایسے لوگوں کی زندگی کے مشکل بھرے واقعات سن کر سہم جاتا ہے اور طے کرلیتا ہے کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔جس نے کام کرنا ہے وہ موٹیویشن کے بغیر بھی کرے گا اور جس نے نہیں کرنا اسے بے شک آنجہانی ڈیل کارنیگی کی شاگردی میں دے دیں، وہ ڈیل کارنیگی کو بھی اپنے جیسا بنادے گا۔

٭٭٭٭

ایک بِٹ کوائن کی قیمت تقریباًتین کروڑباون لاکھ ہوگئی ہے۔ ظالموں نے پھربھی اس کا نام ’کوائن‘ رکھا ہوا ہے۔ہمارے ہاں توویسے بھی کوائن ختم ہوچکے ہیں۔اب تو شاپنگ مالز میں جہاں کہیں کوائن دینا ہوتا ہے ایک ٹافی پکڑادیتے ہیں۔ دنیا میں جس جس بندے کے پاس بِٹ کوائن ہے اس کی تو سمجھیں دوبئی لگ گئی۔ مجھے یادہے 80 کی دہائی میں ایک شاعر ملتان کے ایک چھوٹے سے محلے میں اینٹوں پر چھلیاں بھون کر فروخت کرتے تھے۔ میں سائیکل پر ان سے گپ شپ کرنے روز آتا تھا۔

ایک دن دیکھا کہ انہوں نے چھلیوں والے پھٹے پردو تین جار رکھے ہوئے ہیں جن میں بچوں کی ٹافیاں اور سستے بسکٹ بھی پڑے ہیں۔ پوچھنے پر بتایاکہ کاروبار وسیع کرنے کاارادہ ہے۔ اسی دوران انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ عنقریب وہ اسی پھٹے پر آلو کے چپس بھی رکھنا شروع کردیں گے اور یوں یہیں دوبئی لگ جائے گی۔اب لوگوں کی دوبئی نہیں لگتی، لاٹری نہیں لگتی، کایا پلٹتی ہے۔مجھ جیسے درویش لوگ ایسی مالی آسودگی جیسی خرافات سے بہت دور ہیں۔ میں نے کبھی بہت زیادہ پیسوں کی خواہش نہیں کی، درویش کا دنیا داری سے کیا مطلب۔میں تو چاہتا ہوں درویش کے کاسے میں ہرمہینے کوئی اللہ کا بندہ خاموشی سے دو تین بِٹ کوائن ڈال جائے۔اتناہی کافی ہے۔زیادہ کا لالچ کبھی کیا نہ خیال آیا۔رہے نام اللہ کا۔

٭٭٭٭

امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولانا کے اسکول آف میڈیسن نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ برگر، پیزا اوردیگر جنک فوڈ کا چند دن کا مسلسل استعمال بھی دماغ کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ یونیورسٹی کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ بچوں کی اس سے جان کیسے چھڑائیں۔ آج کل تو گلی گلی میں فاسٹ فوڈ کی دکان کھل گئی ہے۔بقول شخصے کتنا ذہین تھا وہ بندہ جس نے فاسٹ فوڈ کےFast میں A شامل کیا۔ہم تو گوشت، سبزیاں اور دالیں کھانے والے لوگ تھے، یہ فاسٹ فوڈ نے کب ہمارے معدوں پر قبضہ کرلیا پتا ہی نہیں چلا۔لذت سے بھرپور غذاؤں کو ہم نے غربت کا درجہ دے رکھاہے، سبزیاں اور دالیں ہم صرف اپنے کھانے کیلئے پکاتے ہیں، مہمان کیلئے چکن ضروری ہے۔ کسی کے گھر جائیں تو مٹھائی یا کیک لازمی ہے۔آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کوئی کسی کے گھر مونگ مسور کی دال یا بھنڈیاں پیک کروا کے لے گیا ہو۔پنیاں، مسی روٹی، پنجیری،دال کی برفی وغیرہ تو کب کی مفقود ہوچکیں، اب دالوں اور سبزیوں کی باری ہے۔فاسٹ فوڈ کے سب سے بڑے شکارلوئر مڈل کلاسیئے ہورہے ہیں جنہیں لگتا ہے کہ گھرکے باہر رکھی کوڑے کی باسکٹ میں فاسٹ فوڈ کا خالی ڈبا نظر آجائے تو محلے میں عزت بڑھتی ہے۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ خالی ڈبے خرید لیا کریں تاکہ کم ازکم اپنے دماغ کو خالی ہونے سے بچا سکیں۔

٭٭٭٭

سوشل میڈیاپرایک وڈیووائرل ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پرڈی جی خان کے کارڈیالوجی ہاسپیٹل میں ایک سیکورٹی گارڈ دل کے مریض کی ای سی جی کر رہاہے۔کچھ لوگوں کیلئےیقیناً یہ منظر حیران کن ہے لیکن یقین کیجئے اکثر سرکاری ہسپتالوں میں یہ فرائض وارڈ بوائے بھی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں بلکہ بسااوقات یہ چھوٹے موٹے ٹانکے، انجکشن اورپٹیاں وغیرہ بھی کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیکورٹی گارڈ ز اپنی ڈیوٹی کے علاوہ بھی عجیب و غریب کام کرتے نظرآتے ہیں۔پٹرول پمپ پرکئی دفعہ پٹرول ڈالنے کا فریضہ بھی سیکورٹی گارڈ سرانجام دیتا ہے۔ایک بہت بڑے سرکاری ادارے کے چار پانچ سیکورٹی گارڈز کو تو میں نے خود ڈیوٹی کے اوقات میں قریبی مزار پر شاپر پکڑے لنگرکے گرد جمع دیکھا ہے۔کبھی کبھی ایسالگتا ہے انہوں نے لنگر سبسکرائب کیا ہوا ہے اور بیل آئیکون بھی دبایا ہوا ہے کیونکہ جیسے ہی کوئی نئی دیگ کھلتی ہے انہیں نوٹیفیکیشن موصول ہوجاتا ہے۔ ڈی جی خان کا سیکورٹی گارڈ اگر ای سی جی کررہا ہے تو داد دیجئے اوراسے اوپن ہارٹ سرجری بھی سکھادیجئے تاکہ کسی ایمرجنسی میں ڈاکٹر صاحب کاانتظار نہ کرنا پڑے۔ پچھلے دنوں ایک میڈیکل اسٹور کے باہر میں نے 70سالہ بزرگ سیکورٹی گارڈ کو بندوق پاس رکھے کرسی پرتسبیح پڑھتے دیکھا تو حیرت ہوئی، پھربڑے ادب سے پوچھا ’بابا جی!اگرڈاکو آگئے توآپ ان پرقابو پالیں گے؟‘۔ وہ یکدم سہم گئے’اللہ کا نام لوبیٹا،ایسی باتیں منہ سے نہیں نکالتے‘۔

تازہ ترین