• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباً مئی 2018ء کے دوران ہوبارہ فائونڈیشن رحیم یار خان کے عمائدین نے سپرنٹنڈنگ انجینئر ہائی وے (مضمون نگار)سے رابطہ کیا۔ عمائدین کا مطالبہ تھا کہ اچھابنگلہ سے راجن پور ٹریفک روانی کیلئے دریائے سندھ پر کچےکے علاقہ میں کشتیوں کا پل نصب کیا جائے تاکہ کچےکے عوام اور اجناس کی نقل و حمل کیلئے مختصر رُوٹ میسر آ سکے۔ عمائدین نے کروڑوں روپے سے تیارہ کردہ فائونڈیشن کی ملکیت آہنی پل کو سرکاری وقف کرنے کی پیشکش کر دی۔ چنانچہ ہم نے روایات سے ہٹ کر اس چیلنج کو قبول کر لیا۔ بعدازاں رحیم یار خان اور راجن پور کے دریائی علاقہ کا دورہ ہوا تو اس مشکل فیصلے کی سنگینی کا ادراک ہوا۔ تب اس علاقے میں جرائم پیشہ افراد اور انکی وارداتوں کی بھرمار تھی۔ سیاسی مجبوریوں اور انتخابی مصروفیات کی بناء پر مقامی انتظامیہ کی توجہ بھی منقسم تھی۔ اسکے باوجود اسوقت کے آرپی او ڈی جی خان نے ہماری ٹیم سے مکمل تعاون فرمایا اور پولیس کی مستقل تقویت فراہم کر دی۔ عرصہ تین ماہ تک ہم اپنے عارضی کیمپ اچھابنگلہ سے اس آہنی پل کی تنصیب کی نگرانی کرتے رہے۔ اس دوران ہمیں دھمکیاں بھی ملتی رہیں اور سبک رفتار موٹرسائیکل سواروں کی مشکوک نگاہیں بھی خوف زدہ کرتی رہیں۔ تب ہمیں احساس ہواکہ عمائدین اپنے ہی علاقہ میں پل کی تنصیب کیوں نہ کر سکے۔جولائی، اگست کی سیلابی طغیانیوں کے بعد دریا کا پانی سمٹ چکا تھا اور رحیم یار خان، راجن پور کے درمیان دریا کا پاٹ چھوٹی چھوٹی کھاڑیوں (Creeks) میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ان کھاڑیوں کو ملانے والے اس آہنی پل کا امتحان شروع ہو گیا کہ پہلی ہی رات ڈاکوئوں کے گروہ نے اپنے بھاری اسلحہ سے فائرنگ کر کے دبیز لوہے کی کشتیوں کو چھلنی کر دیا۔ جو صبح تک ڈوب چکی تھیں ،یوں پل پر ٹریفک کی روانی ختم ہو گئی۔ پل لگانے کی ہماری ضد کے ہولناک نتائج شروع ہو چکے تھے۔خیر اللہ نے کرم کیا، ہم اپنے مقامی اہلکار کے ذریعے ڈاکوئوں کے نوجوان سربراہ سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تقریباً ایک گھنٹہ فون پر اسے قائل کیا ۔آخر کار اس شرط پر کہ ہم انکی قریبی پناہ گاہ جا کر انکے کھانے میں شامل ہونگے، انہوں نے تعاون کی عبوری یقین دہانی کر دی۔خیر ہم نے اگلے روز نامعلوم پناہ گاہ میں کھانے کے دوران انکے تفصیلی احوال سے آگاہی حاصل کی، انہوں نے واضح کیا کہ وہ جرائم پیشہ نہیں، بلکہ برادری اور قبیلے کی باہمی لڑائیوں نے ان کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ خیر ہم نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ جواباً انہوں نے بھی پل کی تنصیب کیلئے رضامندی کا اظہار کر دیا۔ بعدازاں خیرسگالی کے طور پر ہم نے انکے علاقے سے 25 بے روزگار افراد کو پل ڈیوٹی کیلئے تعینات کیا۔ الحمدللہ اب ان سب لوگوں کی ملازمتیں باقاعدہ ہو چکی ہیں ۔ آج بھی مجھے کچے کے علاقے میں دریائے سندھ پر سرکاری ڈیوٹی کے یہ ایام یاد آتے ہیں تو معاً اس علاقے کے بیرروزگار نوجوان، سکولوں سے محروم بچے، علاج سے تہی بزرگ و خواتین اور فضول دشمنیوں میں جھونکے گئے نوجوانوں پر ترس آتا ہے۔کچے کے علاقہ میں پل کی تنصیب کوئی اہم کارنامہ نہیں ہے، یہ معمول کے فرائض میں شامل تھا ، بتانا یہ مقصود ہے کہ لازم نہیں ہر وقت مسائل سے آہنی ہاتھوں نمٹا جائےکہ اس سےبنیادی خرابیاں ختم نہیں ہوتیں ۔ کچے میں نارمل زندگی کی بحالی اور عوام کی قومی دھارے میں شمولیت کیلئے سندھ حکومت نے جو حالیہ اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ جنکے تحت سندھ حکومت نہ صرف کچے کے بیروزگاروں کیلئے روزگار کا اہتمام کرئیگی،بلکہ ان علاقوں میں انفراسٹرکچر ازقسم سکول، ہسپتال، آب رسانی اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیرات کا ہنگامی پروگرام بھی شروع کرئیگی۔

پائیدار امن اور کچے کی خوشحالی کیلئے مصائب کی ذمہ دار اصل وجوہات (Root Cause) کا خاتمہ بھی لازم ہے۔ کچے کا علاقہ دریائے سندھ کیساتھ ساتھ رحیم یار خان، راجن پور سے شروع ہو کر کشمور اور گھوٹکی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ سارا علاقہ مون سون موسم میں دریائے سندھ کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یوں آبادی ہر سال بیرونِ دریا نقل مکانی کرتی رہتی ہے۔ سردیوں کے موسم یعنی اکتوبر سے اپریل تک دریا میں پانی کم ہوتا ہے تو چھوٹے چھوٹے عارضی جزیرہ نما نمودار ہو جاتے ہیں جنکو دریا کی کھاڑیاں (Creeks) سیراب کرتی ہیں۔ اس موسم میں لوگ واپس آ کر گندم اور چارہ کی کاشت کر لیتے ہیں، یا پھر لائیوسٹاک کا کام کرتے ہیں۔ بار بار کی اس نقل مکانی کو مستقل آبادکاری میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ برسات کے دنوں میں سیلابی کیفیات کا حل نکالا جائے۔ گزشتہ صدی میں گڈو بیراج، سکھر بیراج، کوٹری بیراج کے ہمراہ دریائے سندھ پر تعمیر کردہ بندوں کی وجہ سے دریائے سندھ کی گزرگاہ تنگ ہو چکی ہے۔ چنانچہ سیلابی ایام میں پانی کی سطح بلند ہو کر کچے کی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس سیلابی کیفیت اور سطح کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میںآبی ذخائر تعمیر کئے جائیں۔ جہاں صوبہ سندھ کا آبی حصہ اما نتاً محفوظ ہو اور بوقت ضرور صوبہ سندھ کیلئے واگزار کیا جا سکے۔ کچے کے اندرون چھوٹی آبادیوں کے اردگرد ریت سے بھرپور جیو بیگز کے چھوٹے بند بنائے جائیں۔ یوں آبادیوں کو سیلابی صورتِ حال سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے اور بار بار کی نقل مکانی سے بچا جا سکتا ہے۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں دریا کے اندر موجود کچے قطعاتِ اراضی کو چھوٹے مقامی کاشت کاروں میں تقسیم کر دیا جائے، تاکہ وہ دلجمعی سے وہاں کاشت کر سکیں یا ماہی پروری کر سکیں۔ دریائے سندھ کے کناروں کی بجائے چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے اندر پولیس کی چوکیاں تعمیر کی جائیں۔ صوبوں کے دوسرے علاقوں سے قطع نظر کچے کے علاقوں میں یونین کونسلز وغیرہ کے فوری انتخاب کروائے جائیں۔سب آگاہ ہیں کہ اس علاقے کے عوام محنت کش اور امن کے خواہاں ہیں، ان کیلئے مستقل سکونت اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، تو وہ سماج دشمن ڈاکوئوں کا خود خاتمہ کریں گے۔

تازہ ترین