میرے دادا عبدالمجید کے انتقال پہ میری پھوپھی اپنے یتیم بھائی کو شاہ پور (یوپی) سے پنجاب میں ضلع حصار کی دوراُفتادہ تحصیل فتح آباد لے آئیں جہاں اُنہوں نے لوئر مڈل کی تعلیم حاصل کی اور محکمۂ انہار میں پٹواری کا کام سیکھ کر ملازمت حاصل کر لی جو بڑے اعزاز کی بات تھی۔
والد صاحب کی شادی 1909ء میں اپنی چچازاد فردوسی بیگم سے ہوئی۔ میرے بڑے بھائی اعجاز حسن بتایا کرتے تھے کہ والدہ صاحبہ کبھی کبھی اپنی شادی کے بارے میں یہ واقعہ بتایا کرتی تھیں کہ وہ سخت کسادبازاری کا زمانہ تھا۔ شادی کے بعد ابّاجی نے ماہانہ تنخواہ کے آٹھ روپے اُنہیں دیے، تو والدہ صاحبہ سخت شش و پنج میں پڑ گئیں کہ وہ اِتنے سارے روپے کیسے خرچ کریں گی، کیونکہ اُنہوں نے اپنے والد کے گھر اتنے زیادہ پیسے نہیں دیکھے تھے۔ 1911ء میں والد صاحب تبدیل ہو کر منگالہ گئے جو اُترپردیش میں واقع شہر سرسہ سے چھ میل کے فاصلے پر دریائے گھگھر کے کنارے مسلم آرائیوں کا ایک گاؤں تھا۔ یہ گاؤں پورے علاقے میں خوشبودار چاولوں کے لیے مشہور تھا۔ چار سال بعد والد صاحب کا تبادلہ ضلع کرنال کی تحصیل کیتھل میں مسلم راجپوتوں کی ایک بستی ہابڑی ہو گیا جو علم کی روشنی سے محروم چلی آ رہی تھی۔ میری اور میرے تینوں بھائیوں جناب گُل حسن، حافظ افروغ حسن، جناب اعجاز حسن کی پیدائش اُسی گاؤں میں ہوئی۔
والد صاحب خود تو اَعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے جس کا اُنہیں بےحد قلق تھا۔ اِس کا اظہار اُنہوں نے اُس وقت بڑے دکھ سے کیا تھا جب مَیں نے اپنے ایک ہم جماعت کے بہکاوے میں آ کر ہائی اسکول میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ ابّا جان نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرنے کے نتیجے میں دن رات کھیتوں کی پیمائش کرتا ہوں اور زیادہ تر گھر سے باہر رہتا ہوں، چنانچہ جب میرے بڑے بھائی گُل حسن پرائمری تعلیم حاصل کر چکے، تو میرے والد درخواست لیکر انگریز ایکسیئن کے پاس پہنچ گئے جو دورے پر آیا ہوا تھا۔ اُس وقت عام تاثر یہی تھا کہ انگریز انصاف کرتے اور سرکاری ملازمین کے آرام اور جائز مطالبات کا خیال رکھتے ہیں، اگرچہ سیاسی معاملات میں بڑی ڈنڈی مارتے رہتے ہیں۔ایکسیئن نے مترجم سے پوچھا اِس درخواست میں کیا لکھا ہے۔ اُس نے بتایا کہ یہ آپ کے حلقے ہابڑی میں پندرہ سال سے پٹواری ہیں۔ اب اِنکے بڑے لڑکے نے پرائمری کر لی ہے اور اِن کی خواہش ہے کہ اِن کا تبادلہ ایک ایسے حلقے میں کر دیا جائے جہاں ہائی اسکول واقع ہو۔ ایکسیئن صاحب نے اپنے ماتحت کو حکم دیا کہ وہ اُن حلقوں کی نشان دہی کرے جہاں ہائی اسکول کی مراعات بھی موجود ہیں۔ اُسی وقت سارا رِیکارڈ کھنگالا گیا اور اِتفاق سے اُس وقت سرسے کا حلقہ خالی تھا، چنانچہ والد صاحب کا تبادلہ سرسہ کر دیا گیا۔گُل حسن صاحب نے گورنمنٹ ہائی اسکول سرسہ سے 1934ء میں میٹرک پاس کر لیا۔ والدہ صاحبہ نے روز روز تبادلے کے نتیجے میں گھر بدلتے رہنے کے بجائے سرسہ میں ایک مستقل مکان تعمیر کر لیا تھا۔ ابھی چند ہی سال گزرے تھے کہ والد صاحب کا تبادلہ بھانہ ہو گیا جو ضلع کرنال کی تحصیل کیتھل کا ایک گاؤں تھا جس میں بھاری اکثریت غیرمسلموں کی تھی۔ بھانہ میں داخل ہونے کیلئےچار دَروازے تھے۔ ہر دروازے کی بالائی منزل میں عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک عمارت میں پٹوارخانہ تھا اور دُوسرے میں محکمۂ انہار کے عملے کا مسکن۔ یہ عمارت ’جنج گھر‘ کہلاتی تھی۔ یہ دروازے تغلق دور میں حفاظت کیلئے بنائے گئے تھے، کیونکہ یہ علاقے دہلی کے قریب تھے اور اُن پر حملے ہوتے رہتے تھے۔
والد صاحب تنہا ہی بھانہ تشریف لے گئے۔ وہ اُس گاؤں میں جتنی مدت تنہا رہے، جنج گھر میں اقامت پذیر رہے۔ اُن کا معمول تھا کہ تہجد اور فجر کی نمازوں میں بلند آواز میں قرآن شریف کی تلاوت فرماتے۔ اُس گاؤں کی ایک یادگار اَور خوش آئند روایت یہ تھی کہ کسی فقیر کو اَللّٰہ کے نام پر بھیک مانگنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابّاجی کی تلاوت میں ایک ایسا سحر تھا کہ کچھ ہی دنوں میں گاؤں والے اُنہیں دیوتا کے نام سے پکارنے لگے۔ بعدازاں خواتین بھی اپنے مسائل کیلئے اُن کے پاس آنے لگیں۔ خاص طور پر جب کسی عورت کو دورے پڑتے، تو گاؤں والے جِن نکلوانے کیلئے اُن کے پاس لے آتے۔ ابّاجی اُسے دم کرتے، تو وہ ٹھیک ہو جاتی۔
جب ہم ابّاجی کے ساتھ بھانہ پہنچے، تو ہمیں بالائی منزل میں دو کمرے ملے۔ اُن کمروں کے دروازے نہیں تھے۔ ہوا کی روک تھام کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ اُنہی دنوں رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا اور وَالد صاحب نے تراویح کا انتظام کیا۔ بڑے بھائی حافظ افروغ حسن تازہ تازہ قرآن حفظ کر کے آئے تھے، اُنہوں نے تراویح میں قرآن سنانا شروع کیا۔ تمام دن وہ سپارہ یاد کرتے جو اُنہوں نے تراویح میں سنانا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ تراویح کی جماعت بارونق ہوتی گئی اور مقامی لوگوں کا شوق بڑھتا گیا۔ تراویح کی نماز کے وقت مقامی لوگ جنج گھر کے دروازوں پر آ کھڑے ہوتے۔ پہلے یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ وہ نماز میں خلل ڈالنے آئے ہیں، مگر جب وہ اِحترام سے قرآن سنتے اور نظم کے ساتھ واپس چلے جاتے، تو اِعتماد پیدا ہوا کہ قرآن سننے آتے ہیں۔ سردیوں کی راتوں میں غیرمسلموں کو اُٹھائے رکھنا دراصل قرآنِ حکیم کا ایک معجزہ تھا۔ اِسی گاؤں میں ایک اور منظرنامہ بھی دیکھنے میں آیا جو اِسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دلی نفرت کا ناقابلِ تردید ثبوت تھا۔جب ہم بھانہ میں تھے، تو بھائی اعجاز حسن نے 1939ء میں پرائمری کاامتحان پاس کیا۔ وہ ضلع مظفرنگر میں اوّل آئے اور وَظیفہ پانے میں کامیاب رہے۔ خاصی سوچ بچار کے بعد والد صاحب نے اُنھیں بھانہ سے دس کلومیٹر دور وَاقع ایک قصبے پونڈری کے ایس ڈی مڈل اسکول میں داخل کروا دِیا۔ یہ ہندوؤں کا اسکول تھا جہاں مسلمان طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ کھانے کے وقت ہندو طلبہ تو رسوئی (باورچی خانے) کے اندر بیٹھ کر کھانا کھاتے جبکہ مسلمانوں کو رسوئی کے باہر بٹھایا جاتا۔ باورچی لکڑی کی لمبی نالی کے ذریعے اُن کی رکابیوں میں دال ڈالتا اور روٹیاں یوں پھینکتا جیسے مسلمان انسان نہیں، حیوان ہوں۔